دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسلام کی کیونکہ اسلام کے آتے ہی دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا جا چکا تھا۔ عہد نبوی سے لے کرآج تک مدارس اپنے مخصوص انداز میں تعلیم وتربیت اور اپنی بہترین حکمت عملی سے لازوال بے مثال خدمات پیش کر رہے ہیں۔ ان مدارس میں دینی تعلیمات کے حصول کیلئے ہرسال لاکھوں طلباء وطالبات ہزاروں اساتذہ کرام کی زیر نگرانی دن رات قال اللہ قال رسول اللّٰہ ﷺکی صدائیں بلند کررہے ہیں۔ ان مدارس کی نسبت بہت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی‘ اس کی نسبت اس مدرسہ سے ہے جسے اصحاب الصفہ بھی کہاجاتاہے یعنی کہ پہلا دینی مدرسہ جہاں حضور نبی اکرم شفیع اعظم ﷺسے براہ راست صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تعلیم وتربیت‘ حکمت و بصیرت سیکھنے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس حاصل کیا۔ ان میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس سمیت 70 کے قریب نامورجلیل القدر صحابہ کرام بھی شامل ہیں۔ آج جہاں بھی مدارس قائم ہیں ان کی نسبت صحابہ کرام کی اس درسگاہ سے وابستہ ہے۔ دینی مدارس کی تعلیم میں نورانی قاعدہ، ناظرہ و حفظ قرآن مجید، ترجمہ وتفسیر، نحو و صرف، عربی کے اصول و ضوابط، فقہی مسائل،عبادات عقائد ونظریات، معانی ومفہوم، منطق وفلسفہ، سمیت دیگر اسلامی اصولوں پر مہارت حاصل کرناشامل ہوتاہے۔ ان مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے وارثین انبیاء کرام علیہم السلام حفاظ قراء کرام علمائے دین مفتیان کرام شیخ الحدیث اور شیخ التفسیر کی صورت میں ہمارے سامنے موجودہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنہیں نبی کریم روف الرحیم ﷺ نے معزز فرمایا ہے جہاں ایک طرف یہ لوگ دین کے فرائض سر انجام دینے میں مشغول ہیں وہاں دوسری طرف امت کی طرف سے یہ فرض کفایہ اداء کررہے ہیں اگر یہ بھی ان امور کو نظر انداز کردیں تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے ہمیں تو ان عظیم لوگوں کا شکریہ اداء کرناچاہیے کہ آج کہ اس افراتفری کے دور میں بھی یہ لوگ مدارس کے قیام کیلئے فکرمند ہیں جہاں ضرورت مندوں کو بلامعاوضہ تعلیم و تربیت‘ قیام وطعام‘ علاج معالجہ‘ بجلی‘ پانی کتب وغیرہ کاخرچ برداشت کرتے ہوئے یہ سہولیات فراہم کرتے ہیں ورنہ آج کے دور میں ایک چھوٹاساگھرچلانااس کی زمہ داری پوری کرنا کس قدر مشکل ہوچکا ہے اس کا اندازہ ہر شخص بخوبی لگاسکتا ہے ان سب کے عوض انہیں کیا ملتاہے ان لوگوں کوتو جووظیفہ ملتاہے وہ بھی انتہائی کم آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے لیکن باوجود اس سب کہ یہ لوگ صبح وشام دین اسلام کی نشر واشاعت اور سربلندی کیلئے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنی ضروریات زندگی کے خواب کو پس پشت ڈال کر دنیاکمانے کی بجائے دین سکھانے کوترجیح دیتے ہیں جو اس مہنگائی کے دور میں بھی ایک مزود کی اجرت سے بھی کم وظیفہ لیکر دن رات شب وروز دین اسلام کیلئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں ان لوگوں کی قربانیوں کی بدولت ہی آج پوری دنیامیں ہرشہر میں ہرچوک میں چوراہوں میں بستی میں اور گاؤں گاؤں میں مساجد ومدارس آباد ہیں جہاں آذان ونماز کی صدائیں بلندہوتی ہیں اس کے علاؤہ مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم قرآن نماز کلمے سمیت بنیادی مسائل اسلام سیکھ رہے ہیں۔ دین اسلام کی اشاعت ہو مسلمانوں کو دینی تعلیمات سے روشناس کرانا ہو عقائد ونظریات ہوں اعمال و افعال ہوں اخلاق و کردار ہوں عادات کی ڈھال ہو یتیم مساکین فقراء طلباء وطالبات کی کفالت ہویاپھرثقافت و تہذیب معاشرتی و سماجی سمیت دیگر نیک امور کی خدمات ہوں تو ان سب میں مدارس ہمیشہ سے ہی صف اول میں نظر آتے ہیں یہ مدارس قیام وطعام علاج و معالجہ تعلیم و تربیت درس و تدریس جیسی خدمات بلا معاوضہ سرانجام دیتے ہیں
یہ مدارس ہی ہیں جو مادیت کے دور میں قناعت ایثار وقربانی ہمدردی اور روحانی جسمانی انفرادی واجتماعی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں یہ مدارس ہی ہیں جو معاشرے کے کمزور لوگوں کو قیام وطعام فراہم کر رہے ہیں یہ مدارس ہی ہیں جو اللہ کے عذاب کے سامنے ڈھال کاسبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ مدارس اللہ کی نعمت ہیں یہ مدارس معاشرے کے کمزور لوگوں کی مضبوطی کا ذریعہ ہیں یہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں‘ دین اسلام کی پناہ گاہیں ہیں دین اسلام کی اشاعت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں مدارس اسلام کا پرچم بلندکرنے اور اسے پوری دنیا میں لہرانے کا عزم لئے آگے بڑھ رہے ہیں
ان کا ناتو مقابلہ کیاجاسکتا ہے اور ناہی ان کا راستہ روکا جا سکتا ہے یہی وہ مدارس ہیں جہاں سے نکلنے والے عظیم راہنماؤں نے انگریز کامقابلہ کیا ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے شاملی کا میدان ہویاپھرمیسور کا میدان تحریک ریشمی رومال ہو یاآزادی کی جنگ برطانوی سامراج سے ٹکرانے کاعزم ہویا پھر برصغیر سیان قابضین کوبے دخل کرنے کی تحریک یہ مدارس سے نکلنے والے لوگ ہمیشہ صف اول میں کھڑے نظرآئے جس کے نتیجہ میں ان عظیم راہنماؤں کو مالٹا اور کالا پانی جیسی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑہیں اور انگریز کاظلم وستم،جبروتشدد سہناپڑا یہ وہ بوریا نشین ہی لوگ تھے جن سے انگریز اس قدر خوف زرہ تھاکہ دہلی سے لیکر آگرہ تک سینکڑوں علماء کرام کو سرعام درختوں پر لٹکا کر پھانسی دی‘کالا پانی کی ظالمانہ سزائیں سنائیں لیکن ان کے حوصلہ میں عزم میں استقامت میں کوئی فرق ناآیا آزادی تحریک پاکستان میں بھی ان مدارس سے وابستہ لوگوں کا سنہرا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انہوں نے اپنی تحریروں تحریکوں اور تقریروں کے ذریعے سے آزادی کی جدوجہد میں نئی روح پھونکی ان دینی مدارس کی اہمیت روز اول سے لیکر آج تک اور تاقیامت اپنی شان وشوکت کیساتھ برقرار تھی ہے اور رہے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حافظ ظفر رشید