دیا جلا کر ہم)۔۔۔۔ را جہ عبدا للطیف)

شاہد جمیل منہاس/اچھا انسان سفید رنگ کی طرح ہوتا ہے۔سفید رنگ میں کوئی بھی رنگ ملاؤ ایک نیا رنگ بن جائے گا۔ مگر دنیا بھر کے سارے رنگ ملا کر بھی سفید رنگ نہیں بنتا۔کچھ لوگ اس کا ئنات میں سفید رنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ جو پھولوں کی لڑیاں پروتے پروتے دنیا میں رنگ بکھیرتے بکھیرتے اپنا رنگ تبدیل کیے بغیر چپکے سے چلے جاتے ہیں۔ را جہ عبدا للطیف کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے،جو نیک سیرت لوگ ہوتے ہیں،جن کا اوڑھنا بچھونا مخلوق خدا کی فکر ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ سادہ نہیں ہوتے بلکہ ان کو یقین محکم ہوتا ہے کہ یہ دنیا عارضی دنیا ہے۔ اس دنیا نے کسی سے وفا نہ کی۔ لہذا ایسے لوگ دنیا میں دیگر افراد سے وفا کرتے کرتے اپنی عمر تمام کر جاتے ہیں۔ راجہ لطیف کی سادگی اور شرافت کی گواہی زمانہ دیتا ہے امانت دار ایسے کہ جان پر کھیل کر امانتوں کی حفا ظت کرنا ان کا شیوۃ تھا۔ کبھی کسی کو زبان یا ہاتھ سے تکلیف نہیں دیتے تھے۔ دو برس کے بچے کو بھی ”آپ“کہہ کر بلاتے تھے۔اگر کسی کے گھر کبھی تشریف لے جاتے اور وہ چائے بنا کے سامنے رکھتے اور چائے میں میزبان اگر چینی ڈالنا بھول جائے تورا جہ عبدا للطیف خاموشی سے چائے پی لیتے۔ اپنی والدہ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ وہ جس چیز کی خواہش کرتی یا جس چیز کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھتی آپ ان کو مہیا کر دیتے۔ محنت کش اتنے کہ رات گئے تک اپنے حلال کاروبار میں مصروف رہتے اور کو شش کرتے تھے کہ اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اولاد انتہائی سلجھی ہوئی اور والدکی طرح محنت کش اور دوسروں کا خیال کرنے والی ہے۔اپنی رفیق حیات کا جتنا خیال انھوں نے رکھا شاہد ہی کوئی یہ ذمہ داری اس طرح نبھا سکے۔اکثر رشک سے یا یوں کہہ لیں کہ خوشی سے میں نے ان کی رفیق حیات کی آنکھوں میں آنسو دیکھے جو یہ بتاتی ہیں کہ را جہ عبدا للطیف رشتوں کو نبھانا جانتے تھے۔اہل محلہ کا دوست اور خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہہ دینے والا یہ انسان اس طرح اچانک ہمیں چھوڑ کر جا سکتا ہے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ اندھری رات میں روشنی کا مینار اگر اچانک گر جائے تو دنیا تاریکی میں ڈوب جایا کرتی ہے۔یہ روشنی کا مینار اپنے کردار کا لوہا منوا کر چیچہ وطنی کے چک 46 کے سینکڑوں بیٹے اور بیٹیوں کو غمگین کر گیا۔بڑھاپے کی وجہ سے اور گرمی کی شدت میں پانی کی بوتل اپنے پاس رکھتے تھے۔29 مئی کی شدید گرمی میں جب انھیں پیاس لگی اور پانی پینے کیلئے بوتل اٹھائی تو پھر کیا ہوا کہ زندگی یکسر بدل گئی۔ پانی والی بوتل کے ساتھ ہی ایک اور بوتل پڑی تھی جس میں تیزاب تھا۔شدتِ پیاس سے اس بوتل سے ایک گھونٹ پی لیا جس کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہ بچا۔ فوراً تکلیف محسوس ہوئی لیکن گھر آ کر لیٹ گئے اور کہنے لگے میری طبیعت خراب ہے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا یہ شخص ایک دفعہ پھر اولاد اور گھر والوں کے لئے آ سانیا ں پیدا کرنے کے لئے چپ رہا کہ کہیں میری اولاد کو میرے لئے اس گرمی میں ڈاکٹر کے پاس نہ جانا پڑ جائے۔ تکلیف جب حد سے بڑھی تو کہنے لگے میں نے غلطی سے تیزاب پی لیا ہے۔ آپ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ اُن کے بیٹے خاور اور طیب موقع پر موجود تھے۔بیٹوں نے کہا ویل چیئر پر بیٹھیں تو کہنے لگے نہیں میں چل کر جاؤں گا۔ یہاں تک کہ ہسپتال میں کپڑے تک خود تبدیل کیے۔ پہاڑ جتنا حوصلہ رکھنے والے اس شخص کی عظمت کو سلام جس نے اپنے کردار سے سینکڑوں پتھر دل انسانوں کو موم ہونے پر مجبور کیا۔ ہسپتال کے عملے نے بہت کو شش کی کہ اللہ اس بزرگ کو زندگی دے دے مگر جو رات قبر میں لکھ دی جائے اسے کون ٹال سکتا ہے۔ باحوصلہ اور ہنسی خوشی ابدی زندگی کی طرف اپنی سانس بند کر کے پہلا قدم رکھ ڈالا۔تن تنہا موت سے لڑنے والی یہ ہستی جاتے جاتے ہمیں یہ سبق دے گئی کہ عاجزی اور انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو کہ یہ زندگی پانی کا ایک بلبلہ ہے۔ جاتے جاتے ایک سبق یہ بھی دے دیاکہ مخلوق خدا اور رشتوں کی قدروقیمت کو سمجھو کہ یہ لمحا ت پھر واپس نہیں آیا کرتے۔
تمہیں خبر ہی نہیں کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
چیچہ وطنی کے چک46 والوں کو جب یہ خبر ملی تو دنیا نے قیامت صغریٰ کا منظر دیکھا کیو ں کہ اس دن اہل محلہ کا باپ سب کو چھوڑ کر چلا گیاتھا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اپنے پوتے پو تیوں سے اور بہو سے ہنسی خوشی بچھڑنے ولا شخص ان سے ایسے بچھڑ جائے گا کہ جیسے وہ تھا ہی نہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب وہ حج کر کے واپس آئے تو بہت پر نور نظر آرہے تھے اور مجھے شاہد جی کہہ کر جب ملے۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی اپنے اور جان سے بھی زیادہ پیارے کا اس طرح اچانک چلے جانا بہت بڑادکھ اور درد کا سبب بنتا ہے۔ وہ لمحات میں شائد تا عمر نہ بھلا سکوں جب میں نے دیکھا کہ راجہ لطیف کی خاموش زبان رفیق حیات کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزار ہو گا
امّاں بتاتی ہیں کہ جب لطیف بھائی میر پور خاص میں ہوا کرتے تھے تو چوڑیوں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کے گفٹ بنا کرہمارے لئے اورباقی بہنوں کے لئے ایسے بھیجا کرتے تھے کی جیسے ہم چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور ہم بھی بچوں کی طرح انھیں سنبھال کر رکھا کرتے تھے۔ اپنی بہنوں سے ایسے پیار کرتے تھے کہ جیسے کوئی باپ اپنی اولاد سے کرتا ہو۔ اس سارے مرحلے میں،میں نے جو تڑپ راجہ امجد اور راجہ مشتاق کی دیکھی وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ہر انسان کے دکھ سکھ کے ساتھی اور اپنے علاقے کے نایاب گوہر را جہ عبدا للطیف نے نہ جانے اتنی جلدی کیوں کی کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا۔ایک شخص کے چلے جانے سے محلے کی مسجد ایسے ویران ہوئی کہ جیسے ایک ہجوم یک لخت غائب ہو گیا ہو۔ اسی لئے تو کہ
ا جاتا ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے پیاروں کیلئے ان کی کل کائنات ہوتی ہیں۔ میت کو دفناتے وقت بڑھاپے کی دیلیز پر کھڑے کئی افراد کو میں نے شدت ِ غم سے خاموشی میں دبی آہوں اور سسکیوں میں پایا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا مرحوم سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا لیکن انھیں پتا تھا کہ برگدکی چھاؤں سے آج وہ سب محروم ہو گئے ہیں۔ را جہ عبدا للطیف 1944 میں پیدا ہوئے اور 29 مئی 2014 کو شام 5 بجے ہمیں داغِ مفارقت دے کر ہم سب سے بہت دور چلے گئے۔
اب یہ تیری مرضی مولا کب تک جلتا ہے
رکھ آئے ہیں تیرگیوں میں دیا جلا کر ہم

اپنا تبصرہ بھیجیں