دیار غیر سے آنے والے لٹنے لگے

آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہمی کے ساتھ ساتھ جان و مال کی حفاظت بھی کرے اس کے لیے ملک کے اندرونی نظام کو چلانے کے لیے محکمہ پولیس بنایا گیا ہے لیکن وطن عزیز میں جس طرح ہر نظام ٹیڑھا ہے اس نظام کے ٹیڑھے پن میں پولیس کا پہلا نمبر ہے یہاں پر پولیس کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند سالوں سے این اے52کی عوام اور بالخصوص دیار غیر سے آنے والے ہمارے بہن بھائی جس اذیت کا شکار ہیں اس کا زکر کرنا ہے اس وقت بیرون ملک میں گوجرخان ‘ بیول کلرسیداں اور کشمیر بالخصوص میرپور کے لوگ بہت زیادہ تعداد میں دیار غیر میں کام کر رہے ہیں اور وہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ لانے میں بھی اہم کردارادا کر رہے ہیں لیکن جب یہ لوگ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے ایک طویل عرصہ کے بعد وطن عزیز کا رخ کرتے ہیں تو روات کلر سیداں اور مین جی ٹی روڈ پر ان کا استقبال کرنے کے لیئے ڈاکوں کا ایک گروہ کرتا ہے چند ماہ مین جی ٹی روڈ تھانہ روات کے عین سامنے منڈی بہاوالدین کے رہائشیوں کو کسٹم اہلکاروں کے روپ میں ڈاکوں نے لوٹ لیا وہ فیملی بھی طویل عرصہ کے بعد وطن میں واپس آئی تھی اس واردات کے چند دنوں کے بعد سیالکوٹ کی ایک فیملی کو مین جی ٹی روڈ پر لوٹ لیا گیااور اس کا پرچہ بھی تھانہ روات میں درج کر لیا گیا لیکن تاحال اس ڈکیتی کے ملزمان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ابھی چند دن پہلے ڈڈیال کی ایک فیملی کو روات کلر سیداں روڈ پر لوٹ لیا گیا اور اس کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا اس کے علاوہ روات کلر سیداں روڈ پر موٹر سائیکل سواروں ڈکیتوں کا ایک گروہ آئے دن وارداتیں کر رہا ہے لیکن ابھی تک پولیس اس گروہ تک نہیں پہنچ سکی اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ حلقہ وفاقی وزیر داخلہ کا ہے جن کا اپنے ہر دورے میں ببانگ دل یہ دعوی ہوتا ہے کہ میرے علاقے میں کوئی کرپٹ بندہ ڈیوٹی نہیں کر سکتا اور جو عوام کی خدمت نہیں کر سکتا اس کو اس محکمہ میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن جب دوسری طرف ان سے پولیس کی کارکردگی پر سوال کیا جاتا ہے تو جناب کی طرف سے جواب آتا ہے کہ میں کیا پولیس میں فرشتے لیکر آوں انہی لوگوں سے کام چلاو چوہدری نثار علی خان وزارت داخلہ جیسا مضبوط ادارہ چلارہے ہیں اور تمام ایجنسیاں ان کے انڈر کام کر رہی ہیں تو کیا ان کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ عوام اور بالخصوص اپنے حلقہ کی عوام کو اس مشکل سے نجات دلائیں اور یہ کام ان کے دائیں ہاتھ کا ہے لیکن گزشتہ 4سالوں سے ان کی حلقہ کی عوام اور بالخصوص بیرون ملک سے آنے والی عوام آئے دن لٹ رہی ہے لیکن اس کی نہ تو ان کو پرواہ ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کام کر نے والوں کو چلیں اگر آپ کے پاس حلقہ کی عوام کے لیے وقت نہیں تو کوئی بات نہیں لیکن جو لوگ وطن عزیز کے لئیاور اپنے پیاروں سے دور رہ کردن رات کام کر رہے ہیں اور کئی سالوں بعد اس خوشی سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے وطن جا رہے ہیں جب آتے ہی ان کا استقبال آپ کے حلقہ میں ڈکیت کرتے ہیں اور وہ اپنی لائی ہوئی جمع پونچھی سے محروم ہو جاتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے کیا وہ آپ کے لیے اور وطن عزیز کے لئے ان کے دل سے کیسے کیسے الفاظ نکلتے ہیں لیکن اس بات کی طرف جناب نے کبھی توجہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس مسلہ کی طرف آپ کے کارخاصوں نے کبھی بھی کام کیا ہے ودسری طرف اگر تھانہ کا رخ کیا جائے تو وہاں رپٹ درج ہونا ہی محال ہے آپ آج بھی تھانہ روات اور کلر سیداں کا ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں اس میں ڈکیتی کے چند ایک ہی واقعات درج ہون گے جب کہ اصل میں سینکڑوں واقعات ہو چکے ہیں لیکن اگر کسی سیاسی یا صحافی کے خلاف کوئی بات ہو تو آپ کے نمائندگان اس میں حصہ لینا باعث ثواب سمجھتے ہیں اور بذات خود تھانے جانے پرفخر محسوس کرتے ہیں اور عوام کے مسائل کے لیے ان کے پاس کوئی ٹائم نہیں ہے لیکن اس عوامی مسلے پر آپ کوخود توجہ دینی ہو گی اور بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کوآئے روز لٹنے سے بچانا ہے بحثیت اس حلقہ کے منتخب نمائندہ کے یہ آپ کا فرض بھی ہے جہاں آپ اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کی گاڑی چلانا فرض عین سمجھتے ہیں تو جس حلقہ کی عوام نے آپ کومنتخب کر کے قومی اسمبلی میں بھیجا ہے اس عوام کی جان مال کی حفاظت بھی آپ کی زمہ داری ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والا نہ صرف عوام بلکہ اللہ کی عدالت میں بھی جواب دہ ہو گا{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں