دہشت گرد کون؟ / محمد شہزاد نقشبندی

محمد شہزاد نقشبندی
جنگی حکمت عملی کے مطابق جب کسی ملک کے خلاف براہ راست حملہ موثر نہ ہو تو اس کو نقصان پہنچانے کے لئے دو کام کیے جائیں ایک اس ملک کے اندر مقامی آبادی کے ذریعے بدامنی اور انتشار پیدا کر دیا جائے جیسے لیبیا کے اندر کیا گیا قذافی حکومت جو پچھلے تقریبا 40 سال سے قائم و دائم تھی اسے ختم کر دیا گیا لیبیائی قوم کو آپس کی جنگ کے ذریعے تباہ وبرباد کردیا گیا دوسرا کام اس ملک کو دنیا میں سفارتی محاذ پر تنہا کر دیا جائے اور اس پر معاشی پابندیاں لگا دی جائیں جیسے ایران لیبیا اور شمالی کوریا اس کی واضح مثالیں ہیں جس کی بنا پر ان کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی قیام کے دن ہی سے پاکستان بھارت کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے اس لئے 70 سالوں کے اندر تین جنگیں لڑ چکا ہے جب پاکستان کو کمزور کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی

تو اس نے یہ طریقہ کار استعمال کرنا شروع کیا کہ پاکستان کو اندرونی سطح پر بدامنی کا شکار کردیا جائے اور عالمی سطح پر بھی اس کو سفارتی لحاظ سے تنہا کر دیا جائے اس کے لئے اس نے اپنی ایجنسیوں کے ذریعے دونوں کام بڑی مہارت سے انجام دینے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی کی مدد پاکستان کے ساتھ شامل حال ہے اسے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اندرونی سطح پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھارتی ایجنسی را ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے جس کا انکشاف بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر جاسوس کلبھوشن یادیو المعروف حسین مبارک پٹیل کی 3 مارچ 2016 کو گرفتاری سے ظاہر ہوتی ہے کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ 2003 اور 2004 میں وہ کراچی کا بھی دورہ کر چکا ہے اور اس کے رابطے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اور بلوچ لبریشن موومنٹ جیسی تنظیموں سے تھے تاکہ بلوچستان کا امن تباہ کیا جائے جن کو وہ فنڈنگ بھی کرتا تھا کہا جاتا ہے کہ اس نے 400 ملین ڈالر ان لوگوں میں تقسیم کئے

اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس کام کے احکامات اسے را کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار سے ملتے تھے ان کے علاوہ ایم کیوایم لندن اور عزیر بلوچ وغیرہ کے ساتھ بھی رابطے تھے اور ان کے آدمیوں کی انڈیا میں ٹریننگ کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا تا کہ کراچی کا امن وامان تباہ وبرباد کردیا جائے اسی طرح بھارت نے کھیلوں کے عالمی ایونٹ کو بھی پاکستان سے دور رکھنے کے لئے 3 مارچ 2009 کو لبرٹی مارکیٹ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر 12 دہشت گردوں کے ذریعے حملہ کرایا‘ فرانزک ٹیسٹ کے مطابق اس حملہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی بمبئی حملوں میں استعمال ہونے والے اسلحہ ھی جیسا تھا جس میں بھارت کے ملوث ہونے کا اشارہ ملتا ہے‘ سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کے لئے بھارت مضبوط منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے ملک کے ہی اندر دہشت گردی کے واقعات پلانٹ کرتااور ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتا

جیسے 18 فروری 2007 کو لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی ٹرین سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے آگ لگا دی گئی یہ واقعہ ہریانہ کے قریب پانی پت کے مقام پر ہوا جس میں 68 افراد ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہوئے جن کی اکثریت پاکستانی شہریوں کی تھی بھارت نے فوری طور پر اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی بعدازاں تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ حملہ آور ایک ہندو شدت پسند گروپ تھا جن کا سربراہ سوامی اسیم آنند تھا الزام ثابت ہونے کے باوجود سوامی اور دیگر شریک ملزمان کو رہا کردیا گیا اسی طرح دوسرا واقعہ 26 نومبر 2008 کو بھارت کے معاشی مرکز اور سب سے بڑے شہر ممبئی میں دہشت گردی کے ایک لہر آئی جو 29 نومبر (یعنی تین دن) تک جاری رہی گویا یہ حملوں کی ایک سیریز تھی جو ایک شہر میں تین دن کے اندر 8 مقامات پر ہوئے ان مقامات میں اہم چھترپتی شیواجی ٹرمینس ریلوے اسٹیشن اور دو فائیو سٹار ہوٹل اوبرائے ٹرائیڈینٹ اور تاج محل پیلیس اینڈ ٹاور شامل ہیں ان حملوں میں دھماکے فائرنگ اور کچھ لوگوں کو یرغمال بنایا گیا ان حملوں میں 195 افراد ہلاک اور 327 زخمی ہوئے ان حملوں کے فورا بعد بھارت نے سارا ملبہ پاکستان اور اس کی ایک مقامی تنظیم لشکر طیبہ پر ڈال دیا بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے تو پاکستانی ایجنسیوں کو بھی مورد الزام ٹھہرا دیا حالانکہ بھارت ہی کی ایک غیر معروف تنظیم دکن مجاہدین نے اس کی ذمہ داری قبول کی حملہ آوروں میں سے تین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ صرف ایک اجمل قصاب نامی شخص کی شناخت ظاہر کی گئی کہ یہ پاکستانی اور مسلمان ہے لیکن اس کی تفتیش کے دوران بنائی گئی ویڈیو میں وہ بھگوان سے معافی مانگ رہا ہے

جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے وہ ہندو ہے 2018 میں بھارتی میڈیا اسکا بھارتی ڈومیسائل سامنے لے آیا جس کے مطابق اس کا تعلق اترپردیش کے ضلع اوریا کی تحصیل بدونہ سے تھا یعنی وہ بھارتی شہری تھا نہ کہ پاکستانی 2013 میں بھارت کے وزارت داخلہ کے سابق افسر انڈر سیکرٹری آر۔ وی۔ایس مانی نے عدالتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان حملوں کے پیچھے بھارت کا اپنا ہاتھ تھا ان جیسے واقعات کو بنیاد بناکر بھارت پاکستان کو دنیا میں سفارتی محاذ پر تنہا کرنا چاہتا ہے اور ایک دہشتگرد ملک ڈکلیئر کروا کر عالمی پابندیوں کے شکنجے میں پھنسانیکی کوشش کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے لیکن اس کی توقعات کے برعکس چائنہ کا سی پیک کے ذریعے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ اور بعدازاں سعودی عرب کا 20 ارب ڈالر کی ابتدائی انویسٹمنٹ اور ترکی ملائیشیا قطر عرب امارات کی بھی انویسٹمنٹ میں غیرمعمولی دلچسپی دیکھ کر بھارت نے ایک بار پھر پلوامہ حملے کی صورت میں کاری ضرب لگانے کی بھونڈی کوشش کی حالاں کہ یہ حملہ بھی پہلے حملوں کی طرح ہی پلانٹڈ تھا تاکہ سارا الزام پاکستان اور اس کے اداروں پر لگا کر معاشی ترقی اور ممکنہ مزید انویسٹمنٹ کو روکاجائے اور سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کی ناکام کوشش ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں