دہشتگردی کی حالیہ لہر، بڑے سانحے سے پہلے کچھ کیا جائے‘

پاکستان میں گزشتہ چند روز سے پھر دہشتگردوں کے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور دہشتگرد ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ہیں۔ پاکستان جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا اوردہشتگردوں کے ہاتھوں بے تحاشا جانی و مالی نقصان اٹھا یا، اب ایک بار پھر دہشتگردوں کے نشانہ پر ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیامیں سب سے زیادہ دہشتگردی کا سامنا کرنے والا ملک پاکستان تھا، پاکستانیوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں، اپنا بہت کچھ لٹا دیا، اس کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ 2014میں نیشنل ایکشن پلان کے بعد بڑے فوجی آپریشنوں کے بعد ا س سیلاب میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی تھی قوم نے ذرا سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سکھ دیر پا ثابت نہ ہوا اور گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک بار پھر دہشتگردوں نے وطن عزیز میں کاروائیاں شروع کر دی ہیں اورپاکستانی قوم کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔نائن الیون کے بعد پاکستان پر دہشتگردوں کی اتنی بڑی یلغار تھی کہ اسے روکنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا کیونکہ روزانہ کی بنیاد ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے ہو رہے تھے، ٹارگٹ کلنگ ایک مستقل دردسر بنی ہوئی تھی۔ آئے روز ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، ہزاروں پاکستانی دہشتگردی کی نذر ہو گئے۔ ایک بہت بڑی دہشتگردی کی لہر تھی جو کئی سالوں پر محیط ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا بھر کے دہشتگرد پاکستان میں جمع ہو گئے ہیں اور روزانہ شہریوں کی شہادتوں سے ایسا لگتا تھا کہ دہشتگردوں کو کوٹہ ملا ہوا ہے کہ روزانہ اتنے لوگوں کو شہید کرنا ہے اور پورے ملک کو جلا کر ہی دم لینا ہے۔ اب ان نامعلوم دہشتگردوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں گرفتار کرنا یا ختم کرنا ناممکن نظر آتا تھالیکن پاک فوج نے یہ عظیم کام سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور افواج پاکستان کی دن رات محنتوں کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ دہشتگردوں کی کاروائیاں تقریباً ختم ہو گئیں، ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ خصوصاً ہمارے قبائلی علاقے جو سب سے زیادہ دہشتگردوں کے نشانے پر تھے بلکہ یہ علاقے تو دہشتگردوں کی آماجگاہیں بنے ہوئے تھے یہیں سے پورے ملک میں دہشتگردی کی کاروائیوں کی سرپرستی ہوتی تھی۔ انہوں نے یہاں کے عوام کو یرغمال بنا رکھا تھا بلکہ انہیں دہشتگردوں نے ڈھال بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کو ان کے خلاف کاروائیوں میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود پاک فوج نے نہایت مہارت سے آپریشن مکمل کیا اور دہشتگردوں کا زور توڑ دیا۔پاک فوج کی طرف سے کیے گئے آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد نے دہشتگردوں کا زور تو توڑ دیا لیکن شاید مکمل طور پر ان کا خاتمہ نہ ہو سکا یا ان کی مزیدآمد نہ روکی جا سکی جس کی وجہ سے وہ ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان بار افتخار نے جولائی 2021میں کہا تھا کہ ”پاکستان میں دہشتگردوں کے سلیپر سیلز دوبارہ فعال ہونے کا خدشہ ہے۔“ اب دہشتگردوں کی کاروائیوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ سیل فعال ہو چکے ہیں۔جنہوں نے پاکستان کے بڑے شہروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، پہلے اسلام آباد اور پھر لاہور میں یکے بعد دیگرے حملے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ جو خدانخواستہ کسی بڑے سلسلے کا نقطہئ آغاز بھی ہو سکتا ہے جس کے خدشے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اب ایک بار پھر بڑے آپریشن کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اب پھر سیاسی و عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر پلان بنانا چاہے کہ کس طرح دہشتگردوں سے نمٹا جائے۔ اس سے قبل سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد بھی جب آل پارٹیز کانفرنس میں سیاست دانوں اور فوجی قیادت نے مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ سوچا اور ایک پلا ن جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اس کے تحت دہشتگردوں کے خلاف نہایت مؤثر کاروائیوں کا آغاز کیا تو دہشتگرد وطن عزیز سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ اس وقت ہماری مغربی سرحد جو پاکستان کو افغانستان اور ایران سے ملاتی ہے، بھی انتہائی غیر محفوظ تھی۔ جہاں سے دہشتگردوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ وہاں سے وہ باآسانی پاکستان آتے اور اپنی کاروائیاں کر کے بلا روک ٹوک واپس چلے جاتے۔ لیکن اب سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے جس کا کام تقریباً نوے فیصد مکمل ہو چکا ہے اور مزید بھی انشاء اللہ جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا جس کی وجہ سے یہ سرحد کافی حد تک محفوظ ہو چکی ہے۔ اب یہاں سے دہشتگردوں کی آمد کا خطرہ نہیں ہو گا۔ اب ان دہشتگردوں کا خاتمہ کرنا ہے جو ملک میں موجود ہیں اور جو ملک کے اندر ہی چند تنظیموں کی طرف سے پیداکیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا سیاسی و عسکری قیادت سے گزارش ہے کہ اب کسی بڑے سانحے کا انتظار نہ کیا جائے اور اس سے پہلے ہی دہشتگردوں کے خلاف مؤثر آپریشن کا آغاز کر دیا جائے تاکہ ملک کو مزید کسی بھی بڑے سانحے اور دہشتگردی کی بڑی لہر سے محفوظ رکھا جاسکے
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں