دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضروت

پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت دنیا کا توازن دنیا کے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا یعنی دنیا کو دو طاقتیں لیڈ کر رہی تھیں ان میں سے ہر ایک اس کوشش میں تھی کہ وہ سپر پاور بنے اس طرح دنیا کے ایک حصے کو سوویت یونین لیڈ کر رہا تھا اور دوسرے حصے کو امریکہ لیڈ کر رہا تھا پاکستان کو دونوں ممالک کی طرف سے اپنے ملک کے دورے کی دعوت دی گئی اورہر ایک نے اپنی کشش ظاہر کی ہماری لیڈر شپ نے بھی غور وفکر کی اور آخر کار اس وقت کے ہمارے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اور ہم رشین فیڈریشن کو چھوڑ کر امریکہ کے اتحادی بن گے پھرہم اس کے ساتھ کئی معاہدوں میں شریک رہے جیسے سیٹو اور سنٹو وغیرہ ہمیں بہت ساری مراعات بھی حاصل رہیں لیکن آہستہ آہستہ ہم اس کے اتحادی سے زیادہ اس کے ملازم بنتے چلے گئے اور اس کے ہر حکم پر آمنا و صدقنا کہنا ہماری ضرورت سے زیادہ مجبوری بنتی چلی گی اس مجبوری کی بھی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وہی غلامانہ ذہنیت کہ ہم کمتر ہیں اور رہیں گے ہم ان لوگوں سے آگے نہیں نکل سکتے اس کی غلامانہ ذہن کی دوسری مثال دیکھ لیں جو انگریزی میں بات کرتا ہے وہی پڑھا لکھا ہے اس کو صرف زبان کی بنیاد پر ہی بڑا پروٹوکول ملتا ہے حالانکہ انگلش محض ایک زبان ہے اس کا علم یا نالج سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ اپنی زبان میں بات کرنا اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں اور دوسراہمارے حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی گزارنے کی خواہش جس کے لیے وہ کرپشن کی راہ اختیار کرتے ہیں جس کی بنا پر ملکی دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے اور ملک کے نظام کو چلانے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں رہتے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہمیں مختلف ممالک سے قرض لینا پڑتا ہے پھر قرض دینے والے ملک کی من مانی شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں تیسری بات اقتدار کی خاطر ہمارے لیڈر بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے سیاہ وسفید کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ حکومتیں ان ہی کی مرضی سے بنتی اور ٹوٹتی ہیں بات کہیں اور نکل گئی ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف امریکہ کے ساتھ ہمارا اتحاد چلتا رہا اسی اثنا میں سوویت یونین نے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان پر حملہ کر دیا امریکہ اور سوویت یونین کی سپر پاور کے لیے سرد جنگ چل رہی تھی سوویت یونین کی اس غلطی نے امریکہ کو بھرپور فایدہ اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا امریکہ نے اسلامی کارڈ استعمال کرتے ہوئے مختلف اسلامی ممالک سے جنگجو اکٹھے کیے اور پاکستان کی سربراہی میں ان کو سوویت یونین کے خلاف کھڑا کردیا جن کی امریکہ اور اسلامی ممالک اور خاص کر پاکستان کی بھر پور عسکری و مالی پشت پناہی حاصل تھی اس وقت یہ جنگجو امریکی بلاک کی آنکھوں کے تارے تھے سوویت یونین کو نہ صرف افغانستان میں شکست ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ہی سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے اس کی طاقت ٹوٹ کر بکھر گئی امریکہ بھادر کامیاب ہو گیا دنیا کی سپر پاور بن گیا جوں جوں وقت گزرتا گیا وہی جو آنکھوں کے تارے تھے وہ انہیں آنکھوں میں جبھنے لگے ان کو سبق سکھانے کی راہ ھموار کرنے کے لیے نائن الیون کا سارا ملبہ ان پر ڈال دیا اس وقت انکی افغانستان میں باقاعدہ حکومت تھی ان کے خلاف تبلے جنگ بجا دیا گیا ھم نے بھی بامر مجبوری امریکہ بھادر کا ہی ساتھ دیا افغانستان میں طالبان کی حکومت دیکھ کر پاکستانی گروہ بھی پاکستان فتح کرنے کے لیے ان کے نقش قدم پر چلتے ھوئے حکومت کے خلاف کھڑے ہوگئے اور کچھ کو ان کی طاقت کے کھونے کا دوکھ تھا ان کی شکست کا سارا ملبہ

ہم پر ڈال کر ھمارے خلاف کھڑے ھو گئے ان سب کے پیچھے میں سوچ خوارج والی تھی اپنا نظریہ منوانا اکثریت نے ان کے نام کا لیبل لگایا اور پاکستان میں دہشت گردی کی باضابط کاروائیاں شروع کر دیں کچھ نے تو مخصوص علاقے پر اپنی حکومت تک قائم کر لی اور اپنا قانون نافذ کر دیا یہ تمام کاروائیاں مختلف گروہوں کی طرف سے اسلام کے نام پر ھوتی رہیں جسمیں عام عوام الناس کو گلیوں بازاروں میں بم دھماکوں سے قتل کیا جانے لگا بچیوں کے تعلیمی اداروں کو بم سے اڑانا شروع کر دیا گیا پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کی وحشت ناک اور درد ناک کاروائی کی جس میں ایک استانی کو زندہ جلا دیا گیا اور ایک سو اکتالیس معصوم بچوں کو شہید کر دیا اور اس ساری کاروائی کا نام اسلام رکھا یہ دہشگردانہ کاروائیاں تقریباً بیس پچیس سال سے مسلسل جاری وساری ہیں جس میں لاکھوں افراد شہید وزخمی ھوئے اور پاکستان کا جو معاشی نقصان ھوا اس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں دہشت گرد ملک کے طور پر جانا پہچانا جانے لگا اور اس کے ساتھ اسلام بھی بدنام ھوا اور اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو نعوذباللہ دہشتگردی کی تعلیمات کے ساتھ منسلک کر دیا گیا پاکستان اور اسلام کے امن پسند بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے جو محنت کرنا پڑی اور پڑ رہی ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ابھی یہ کچھ کاروائیاں کم ھوئیں تہیں لیکن پچھلے دو سالوں سے وہ پھر سر اٹھا رہے ہیں بلکہ کئی مقامات پر آب بھی گورنمنٹ کے نمائندوں سے مذاکرات ھو رہے ہیں اور دو دن پہلے بنوں میں سی ٹی ڈی کے دفتر میں یہ کاروائی ھوئی تقریباً پچیس افراد شہید ھو گئے یہ ساری ھمارے اداروں کی کمزوری ہے جو لوگ ھمارے ملک اور ھمارے دین کے ساتھ کھیل رہے ہیں ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضروت ہے اس کے لیے کسی کمزوری کسی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ھوئے ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاھر ھوں گے وہ نو عمر ناپختہ عقل لڑکے ھوں گے وہ اسلامی تعلیمات پیش کریں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے ایسے خارج ھوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ھوتا ہے پس تم (دوران جنگ)جہاں بھی پاؤ قتل کر دو کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا آج ملے گا (بخآری,مسلم, ابن ماجہ) اس لیے ھمیں مذاکرات کے ذریعے ان کو محفوظ راستہ فراہم کرنا اپنے سر میں کیل ڈھونکنیں کے برابر ہے کیونکہ انہیں بعد میں جب بھی موقع ملا وہ اس قبیح حرکت سے باز نہیں آئیں گے اس لیے وہ جہاں ملیں ان سے سختی سے نپٹا جائے تاکہ ھم اپنا آپ اور مستقبل محفوظ کر سکیں

اپنا تبصرہ بھیجیں