157

دھمیال سرکل میں عطائی ڈاکٹروں کا راج

ڈینگی وبا نے پورے ملک کی طرح دھمیال، گرجا روڈ، چکری روڈ و نواح میں بھی پنجے گاڑ لئے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عطائی ڈاکٹروں نے مقدس سمجھے جانے والے علاج معالجے کے پیشے کو بھی کاروباری صنعت بنا کر رکھ دیا ہے۔ جا بجا عطائی اور جعلی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے جو بغیر کسی لائسنس کلینک کھول کر شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ مختلف قسم کے ٹیسٹ، انجکشنز اور دوائیوں کے نام پر سادہ لوح عوام سے پیسے بٹورنا معمول بنا چکا ہے اور علاقے میں کوئی سرکاری ہسپتال نہ ہونے کے باعث شہری ان جعلی ہسپتالوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہیں۔ اِکا دُکا بنیادی صحت مراکز کی حالت یہ ہے کہ نہ تو وہاں پروفیشنل ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی ٹیسٹ وغیرہ کروانے کا کوئی موثر نظام موجود ہے، مستزاد یہ کہ ادویات کی کمی کے باعث شہری دانستہ وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ خرابی صحت کے باعث ان جعلی کلینکس جانے والے عوام کو بغیر حال احوال پوچھے گلوکوز کی ڈرپ لگا دی جاتی ہے تا کہ وہ ہزار پندرہ سو روپے دیئے بغیر واپس نہ جائیں، ڈرپ کے بعد انھیں مختلف قسم کے ٹیسٹ لکھ دیئے جاتے ہیں جن کی مد میں بھی ان سے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں اور پھر سرکاری ہسپتال کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ چند ایک ڈاکٹر ز اور کلینک کو چھوڑ کر یہاں کافی بھاری تناسب ان جعلی معالجوں کا ہی ہے۔ انہی عطائیوں کی وجہ سے راولپنڈی شہر کی نسبت دھمیال و نواح میں ہیپی ٹائٹس، ایڈز اور جلدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان کلینکس میں حفظات صحت کے اصولوں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور غیر معیاری سرنجوں کے استعمال سے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔نان پروفیشنل میڈیکل عملہ ددھڑلے سے شہریوں کی زندگیوں اور جیبوں سے کھیل رہا ہے۔ا ن معالجوں کا بالعموم طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مین روڈ کے اطراف میں میڈیکل سٹور کھول لیا جاتا ہے۔ چند روز بعد میڈیکل سٹور کے ساتھ ہی چھوٹا سا سیٹ اپ قائم کر دیا جاتا ہے جسے بعد ازاں میڈیکل سینٹر یا کلینک کا نام دے کر شہریوں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ محض یہی نہیں کاروبار چلنے کے بعد اس کلینک کے اندر ہی مختلف امراض کے چھوٹے چھوٹے شعبے قائم کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کلینک کا رُخ کرنے والے مریضوں کو لوکل ادویات لکھ دی جاتی ہیں جو عموماً انکے اپنے میڈیکل سٹور کے علاوہ کہیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں اور ان دوائیوں کی قیمت بھی مشہور برانڈز کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ متعدد بار اس جانب توجہ دلانے کے باوجود نہ تو محکمہ صحت کے کان پر جوں رینگی نہ ہی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارا کی۔ سبھی جانتے ہیں کہ چکری روڈ، دھمیال سرکل، گرجا روڈ، حیال و نواح میں کئی لاکھ کی آبادی بستی ہے مگر اس جدید دور میں بھی یہاں سہولیات کا فقدان اس بات کا غماز ہے کہ اعلیٰ حکام کو عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ متعدد لیبارٹریاں ہونے کے باوجود انکی مشینوں کے معیار پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں کیونکہ ایک لیبارٹری اور دوسری کی رپورٹ میں عموماً اچھا خاصا فرق ہوتا ہے۔ یوں کوئی سرکاری ہسپتال نہ ہونے کے باعث شہری علاج معالجے کی سہولت کیلئے راولپنڈی شہر کا رُخ کرتے ہیں، گاڑیاں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں جس کے باعث اکثر واقعات میں مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ چکری روڈ پر موجودہ فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹری جو تقریبا 10 برس سے بند پڑی ہے، اگر اسے باقاعدہ ہسپتال میں تبدیل کیا جائے تو مسائل میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔ دھمیال اور ڈھوک چٹھہ میں بی ایچ یو یعنی بنیادی صحت مراکز موجود ہونے کے باوجود وہاں ادویات کا فقدان رہتا ہے، اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ ان مراکز کو رورل ہیلتھ سینٹر یعنی دیہی صحت مراکز کا درجہ دے کر یہاں ڈاکٹرز کی تعیناتی اور ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ صوبائی وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد، ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ کے دیگر اداروں سے مطالبہ ہے کہ ان جعلی کلینکس کے خلاف کارروائی کر کے علاقے سے ان عطائی معالجوں کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے اور شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولیات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرائی جائیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں