دھان گلی کو سیاحتی مقام ڈکلیئر کرنا وقت کا تقاضہ

کلر سیداں سے مشرق کی جانب شاہراہ کشمیر پر سفر کیا جائے تو 25کلو میٹر کے فاصلے پر خطہ پوٹھوارکا تاریخی اور تحصیل کلر سیداں کا واحد سیاحتی مقام دھان گلی آتا ہے تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ شہاب الدین غوری،محمود غزنوی،پرتھوی راج چوہان مشہور ملکہ رانی منگو کے علاوہ بیشماربادشاہوں کی گزر گاہ بھی رہا۔آج بھی پاکستان اور کشمیر کی اکژاعلیٰ شخصیات کا گزر اسی رستے سے ہوتا ہے۔کشمیر کی گل پوش وادیوں سے پھوٹنے والا دریائے جہلم بھی دھان گلی کے مقام پر اپنے آپ کو منگلا ڈیم میں ضم کر دیتا ہے۔یوں تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان پھیلا ہوا یہ خوبصورت مقام اپنا ثانی نہیں رکھتا لیکن خاص طور پر یہاں کنکریٹ سے بنا ہوا 30فٹ چوڑااور قریباً 450میٹر لمبا وسیع و عریض پل جو کہ پاکستان اور کشمیر کو آپس میں بغل گیر کر دیتا ہے انسانی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔80کی دہائی میں اس مقام پر لوہے کے رسوں سے بنا ہوا پرانا پل تقریباً20سال تک نہ صرف پاکستان و کشمیر کی آمدورفت کا ذریعہ بنا رہا بلکہ دھان گلی کو بطور سیاحتی مقام بھی متعارف کراتا رہا۔ یہ پل ہلکی ٹریفک کے لیے تو بہترین کام سر انجام دیتا رہا(کیونکہ اس پر ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممکن نہ تھا)وقت کے ساتھ ساتھ شاہراہ کشمیر پر ٹریفک کا بہاؤ برھتا گیا آخر کار 2009میں یہاں پر ایک وسیع و عریض پل جو کہ صرف دو ستونوں پر قائم ہے تعمیر کیا گیا۔اس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا اور اس پل کو باب یوسف رضا گیلانی کے نام سے منسوب کیا گیا۔اس پل کی تعمیر سے راولپنڈی اور اسلام آباد سے ہیوی ٹریفک /گاڑیاں دینہ منگلا سے گھوم کر میر پور،ڈڈیال، چکسواری آتی تھی ان کے لیے وقت کے ضیاع کے ساتھ 150کلو میٹر کا فاصلہ بھی کم ہو گیا۔تحصیل کلر سیداں کا واحدسیاحتی مقام ہونے کے باعث یوں تو ہر روز ہی سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر عید الفطر،عید الضحیٰ،14اگست اور 5فروری کو یہاں سیاحو ں بالخصو ص نوجوانوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ 05فروری کو ملک بھر کی طرح اس مقام پر بھی کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے نہ صرف انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے بلکہ اس پل پر شاندار تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے جس میں ڈڈیال اور کلر سیداں سے اسسٹنٹ کمشنر کی قیادت میں دو بڑی ریلیاں اظہار یک جہتی کیلئے اس مقام پرپہنچتی ہیں جہاں پر مقررین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔اس خوبصورت تقریب کا اہتمام یوتھ لیگ سر صوبہ شاہ گزشتہ کئی سالوں سے کر رہی ہے اس کے علاوہ ماہ صیام میں اپنا روزہ ٹھنڈا کرنے کے لیے سیاح اس مقام کا رخ کرتے ہیں۔یہاں پر لوگ تیراکی کے علاوہ کشتی رانی سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔قدرتی اعتبار سے یہ مقام انتہائی خوبصورت ہے مگر حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث یہ مقام خوبصورت ہونے کے باوجودوہ شہرت حاصل نہ کر سکا جس کی چند وجوہات ہیں۔پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہاں پر پارکنگ کا بڑا مسئلہ ہے خاص دنوں میں رش کے باعث بحث و تکرارسیاحو ں کے گھومنے کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔مشہور مقام ہونے کے باوجود یہاں پر کسی قسم کاکوئی پکنک پوائنٹ نہیں ہے جہاں پر لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ دن گزار سکیں اگر حکومت توجہ دے تو پارک اور پکنک پوائنٹ بنا کر نہ صرف اس علاقے کو چار چاند لگا سکتی ہے بلکہ بہترین زرمبادلہ بھی کما سکتی ہے۔یوں تو مختلف جگہوں پر فش پوائنٹ اور کولڈ ڈرنکس کے سٹال موجود ہیں جو سیاحوں کے لیے نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ان کے من پسند ریٹ بھی مقرر ہیں۔حکومتی توجہ کے ساتھ ساتھ بزنس مین لوگ ذاتی دلچسپی لیں۔یہا ں پر مارکیٹ،ہوٹل ریسٹورنٹ اور فش پوائنٹ بنائیں تو نہ صرف اہل علاقہ کو روزگار میسر ہو سکتا ہے بلکہ اس مقام کی خوبصورتی میں اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ دھان گلی سے کچھ ہی فاصلے پر کاہلیاں سیاہلیاں کا علاقہ جہاں پر آئل اینڈ گیس کے کافی مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔ 1996میں OGDCLکمپنی یہاں پر ڈرلنگ کا آغاز کر چکی ہے۔OGDCLکے علاوہ ماڑی گیس کمپنی اور B.J.Pکمپنی مختلف مقامات پر اپنے پوائنٹ بھی کلئیر کر چکی ہے۔اس لحاظ سے یہ علاقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔دھان گلی سے شمال مغرب کی جانب کچھ ہی فاصلے پر صوفی بزرگ حضرت داؤد شاہ حقانی کا مزار بھی ہے جہاں پر ہر سال ہزاروں عقیدت منداپنی حاضری کیلئے آتے ہیں۔ اگر حکومت وقت اس مقام پر توجہ دے تو نہ صرف اس علاقے کی قسمت بدلی جاسکتی ہے بلکہ اس مقام کو خطہ پوٹھوار کابہترین سیاحتی مقام بھی بنا یا جا سکتا ہے۔وہ لوگ جو 5فروری کو یوم یک جہتی کشمیر پر راولپنڈی/اسلام آباد سے کئی سو کلومیٹر دور منگلا یا کوہالہ کے مقام پر جاتے ہیں ان کے لیے یہ نہ صرف قریب ترین بلکہ خوبصورت ترین مقام بھی ہے یہاں کی بہترین سوغات منگلا ڈیم کی تازہ مچھلی ہے جو لوگ نہ صرف خود شوق سے کھاتے ہیں بلکہ گھر کیلئے بھی بطور سوغات لے کر جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں