دوقومی نظریہ کےبارے شعوراجاگرکرنے ضرورت

ضیاء الرحمن ضیاء/دس رمضان المبارک کی شب اچانک سوشل میڈیا پر تیرہ سو سال پہلے سندھ میں رونما ہونے والے اہم واقعات پر بحث شروع ہو گئی اور کچھ لوگ سندھ کے ہندو حکمران راجہ داہر کو ہیرو قرار دینے پر بضد نظر آئے جبکہ عوام کی اکثریت مسلم جرنیل محمد بن قاسم کو اصل ہیرو قرار دے رہے تھے۔ جو حضرات محمد بن قاسم کو ہیرو خیال کرتے ہیں وہ اپنی ہزار سال پرانی تاریخ سے حوالے دیتے ہیں۔ ان کے پاس تاریخی حوالوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، اس کے برعکس راجہ داہر کو ہیرو قرار دینے والے چند نئے مؤرخین کی طرف سے مرتب کی گئی تاریخوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ قوم پرست مؤرخین گزشتہ تمام تاریخی حقائق کا انکار کرتے ہوئے نئی تاریخ مرتب کر کے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گزشتہ تاریخی ماخذ کو تروڑ مروڑ کر ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو قرار دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں، ان کی تائید کرنے والے بھی چند ایک افراد ہیں جو سوشل میڈیا پر عوام کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔
ایسے افراد قوم پرست ہیں جو ہمیشہ بھارت کی پشت پناہی میں پاکستان کو تباہ کرنے اور یہاں کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وقتا فوقتا ایسے فتنے ہمارے معاشرے میں سر اٹھاتے رہتے ہیں راجہ داہر کو ہیرو قرار دینابھی ایسا ہی ایک فتنہ ہے جس کے ذریعے ہماری شاندار اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ راجہ داہر جو انتہائی بزدل حکمران تھا اسے ہیرو قرار دینا بعید از قیاس ہے۔ تاریخ کا بہت بڑا ذخیرہ اس بات کا گواہ ہے کہ جب سندھ کے ساحل پر مسلمانوں کے جہازوں کو لوٹ کر خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا گیا تو حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو خط لکھ کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تو راجہ داہر نے کہا کہ یہ کارنامہ بحری قزاقوں کا ہے اور وہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اب یہ کیسا بہادر حکمران ہے جو اپنے علاقے کے بحری قزاقوں کو بھی لگام نہیں دے سکتا؟ ہزار سال پرانے بعض مؤرخین یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو پیشکش کی کہ اگر وہ قزاقوں کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا تو ہم مسلم فوج بھیج دیتے ہیں جو اس کی ہی سرکردگی میں ان قزاقوں کے خلاف کاروائی کرے گی لیکن اس نے انصاف پر مبنی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے دل میں چور تھا جس کی وجہ سے وہ قزاقوں کے خلاف کاروائی سے کتراتا تھا۔
پھر جو لوگ محمد بن قاسم کی مہم جوئی کو اقتدار کی حرص سے تشبیہ دیتے ہیں وہ ذرا اس بات پر غور کریں کہ اگر انہیں اقتدار کی حرص ہوتی تو حجاج بن یوسف براہ راست حملہ کر ا دیتا پہلے خطوط اور فوجی امداد کی پیشکش کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس وقت اسلامی حکومت دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور حکومت تھی جس نے قیصر و کسریٰ جیسی سپر طاقتوں کو پچھاڑ دیا تھا تو سندھ کی حکومت تو ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ ایسے ہی تیرہ سوسال کے بعد بہت سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں جو پہلے تاریخ میں کبھی غیر مسلموں کی طرف سے بھی نہیں کیے گئے۔ ان اعتراضات کے ذریعے محمد بن قاسم اور دیگر مسلم فاتحین کی کردار کشی کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ان سب اعتراضات کے جوابات تیرہ سو سالہ تاریخ میں موجود ہیں۔ تاریخی حقائق کو اگر قوم پرستی کے بتوں کو چھوڑ کر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہی نتیجہ اخذ
ہوتاہے کہ انہی مسلمان فاتحین کی بدولت ہی برصغیر میں اسلامی حکومت قائم ہوئی اور مسلمانوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اگرچہ مسلمان فاتحین کے علاوہ صوفیاء کرام اور مسلمان تاجر بھی یہاں اسلام کو روشناس کراتے رہے لیکن وہ نہایت محدود پیمانے پر تھا اور ان کی وجہ
سے اسلامی حکومت قائم کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ مسلمان جرنیل و فاتحین ہی تھے جنہوں نے اس خطے میں اسلام کو وسیع پیمانے پر پھیلایا اور یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ برصغیر میں جتنے بھی مسلمان حکمران آئے انہوں نے یہاں انصاف کے ساتھ حکومت کی اور مقامی افراد کے ساتھ میل جول رکھا انہوں نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ انہوں نے ان فاتحین کی نہ صرف اطاعت کی بلکہ بڑے پیمانے پر ان کے مذہب کو بھی قبول کیا اور صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی ان کی اولادیں ان کے ہی مذہب پر قائم ہیں۔
اگر ہم من گھڑت تاریخ پر یقین کرنے لگیں تو دوقومی نظریہ جو پاکستان کی اساس ہے اس کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ اگر ہم مسلم فاتحین کے مقابلے میں ان بزدل ہندو راجاؤں اور حکمرانوں کو ہیرو قرار دینے لگیں گے تو پھر اسلام اور دیگر مذاہب کے ہیروز خلط ملط ہو جائیں گے اور ہم اپنے ہیروز کی صحیح شناخت اور ان کے کارناموں کا ذکر تک کھو دیں گے۔ دو قومی نظریہ تو یہی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام میں قومی وحدت اور دوقومی نظریہ کے حوالے سے شعور اجاگر کرے۔ اس کے لیے مختلف علاقوں میں سیمینار منعقد کرائے جائیں۔ پورے ملک بلخصوص دوردراز علاقوں جہاں قوم پرستی کا زیادہ غلبہ رہتا ہے وہاں ٹیلیویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع جیسے پمفلٹ اور کتب وغیرہ کی مفت تقسیم کر کے عوام کو حقائق سے آگاہ کرے اور فتنے
پھیلانے والوں سے باز رکھنے کی کوشش کرے تاکہ قومی وحدت اور دوقومی نظریہ جس سے پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کا اتحاد وابستہ ہے، ہماری قوم میں زندہ رہیں اور ان کی روشنی میں وہ تمام تر فتنوں سے دور رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں