168

دنیا کی رعنائی

پروفیسر محمد حسین
دنیا میں عام طور پر ہماری یہی سوچ ہوتی ہے کہ ہمیں وہی کچھ کرنا چاہیے جو دنیا کے لوگ کرتے ہیں ہم جس معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں اس سے کٹ کر تو نہیں رہ سکتے ہمیں دنیا میں رہ کر ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے دنیا کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونا ہے کھیل کود میں حصہ لے کر ملک کا نام روشن کرنا ہے انٹرنیٹ پر تفریح کے لئے اپنے آپ کو مصروف رکھنا ہے مہنگے سے مہنگا موبائل فون بھی خریدنا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا سکے دنیا کی دوڑ میں ہم کسی سے پیچھے کیوں رہ جائیں کھانے پینے کی ہر قسم کی چیزیں بازاروں میں ملنے لگی ہیں اب ہمیں اپنے گھروں کی عورتوں کو تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اچھے سے اچھے ہوٹل بازار کھل چکے ہیں جہاں سے کھانے پینے کی ہر چیز مل سکتی ہے غرضیکہ ہمارے ملک میں سیرو تفریح ‘کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے اس قدر زیادہ مواقع مل سکتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کو بہت خوبصورت بنا سکتا ہے ہم ہر طرح سے اپنی زندگی میں تمام سہولیات سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو بے خوف زندگی گزارنے کے قابل بنا لیں تو ذرا سوچئے کہ کیا ہم اپنی زندگی کو کامیاب زندگی کہ سکتے ہیں ؟ کتنا عرصہ ہم اپنے دل کو اس طرح بہلا سکے گے کیا ان طریقوں سے ہماری تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور ہمارا دل پرسکون ہوجائے گا؟ نہیں ہرگز نہیں یہ سب غیر فطری طریقے ہیں ان سے کبھی انسان دلی طور پر مطمئن نہیں ہو پاتا کیونکہ یہ دنیا عارضی اور ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والی زندگی آگے آنے والی ہے اور وہ ضرور آئے گی تب ہماری یہ سوچ غلط ہوگی لیکن افسوس کہ ہمار ا رویہ کچھ ایسا ہی بنتا جارہا ہے کہ ہم اپنے مسلمانوں والے طور طریقوں کو بھولتے جار رہے ہیں اور مغرب اور ہندوانہ تہذیب کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان لوگوں کا رستہ جن کی ہم تقلید کر رہے ہیں آگ کی طرف لے جانے والا ہے ہمارے دین اسلام کے اندر کوئی کمی تو نہیں جو ہم غیروں کی تقلید کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھا کام کر رہے ہیں یہ کہنا کہ ساری دنیا سود کھا رہی ہے تو ہم سود سے اپنے آپ کو کیسے بچاسکتے ہیں سارے لوگ شادی بیاہ میں ہندوانہ رسوم بجالاتے ہیں ہم کیوں نہ ایسا کریں وغیرہ وغیرہ توکیا ہم اس طرح اللہ کے ہاں جوبداہی سے بچ جائیں گے؟ یہ باتیں کی جائیں تو کہا جاتا ہے کہ تم بڑے مولوی بنے پھرتے ہو تم دنیا میں الگ تھلگ ہو کر رہ جاؤ ں گے دنیا کے ساتھ چلوں گے تو چین سے رہو گے ورنہ یہ باتیں ہم بھی جانتے ہیں مگر ہم اتنے انتہا پسند نہیں بننا چا ہیے کاش سمجھ جائیں کہ یہ انتہا پسندی نہیں بلکہ میانہ روی ہے اگر ہم اسلام کی موٹی موٹی باتوں پر عمل کرنا شروع کردیں تو ہم بہت سکون محسوس کریں گے نماز یں پڑھنا بہت مشکل کام لگتا ہے لیکن اگر ہم نمازوں کی پابندی شروع کر دیں جو مسلمان کو کسی حال میں بھی معاف نہیں ہے پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کو نمازوں میں بڑا لطف آنے لگے گا اور رات کو اٹھ اٹھ کر تہجد کی نمازیں بھی پڑھنے کے عادی ہو جائیں گے پھر کسی نماز کو چھوٹ جانے پر بھی بہت افسوس کا اظہار کریں گے نماز دین کا ستون ہے نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے آخرت میں سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا نماز انسان کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اس سلسلے میں ایک حدیث کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ نے ایک آبادی کو عذاب دینے کا حکم اپنے فرشتے کو دیا تو اس نے اللہ سے عرض کیا کہ یااللہ اس آبادی میں تو ایک بہت عبادت گزار بزرگ رہتے ہیں جو ہر وقت تیری عبادت میں لگے رہتے ہیں تو کیا ان بزرگ سمیت سب کو عذاب میں مبتلا کر دیا جائے تو اللہ نے کہا کہ ہاں اس بزرگ کے اوپر پوری آبادی کو الٹ دیا جائے یعنی ساری دنیا میں گمراہی پھیل رہی تھی اور یہ بزرگ عبادت میں لگے ہوئے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ برائی کو روکنا اکیلے کی عبادت سے زیادہ ضروری ہے ہم جتنی مرضی تسبیح پڑھتے رہیں لیکن اگر معاشرے کے بگاڑ کو روکنے کی کوشش نہ کی تو ہمارا اللہ اللہ کرنا کسی کام نہ آئے گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام ‘ اولیائے کرام اور مفتی حضرات ایک نکاتی ایجنڈا پر میدان عمل میں نکلیں اور قرآن و سنت کے مطابق اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے اکٹھے ہوجائیں قرآن پاک کی آیت آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جب تم کو اقتدار ملے تو نماز قائم کرو زکوۃ کا نظام رائج کرو نیکی کا حکم دو اور بڑائی سے روکو ہمارے پاس قرآن اور حدیث کے علم کے ہوتے ہوئے ہمیں یقین نہیں ہے کہ اسلامی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے اس کی وجہ ہمارا فرقوں میں بٹ جانا ہے ہمیں اپنے مسلک کو پھیلانے کی بجائے اللہ کے دین کے نفاذ کی جدوجہد میں لگ جانا چایئے ہمیں تو کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جہنم کی آگ سے ہم کس طرح بچ سکتے ہیں اس کا حل بھی بتایا گیا ہے کہ فرائض کی پابندی کر کے اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچایا جا سکتا ہے پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام کی ذمہ داری ہمارے ملک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہر مکتبہ فکر کے قائدین کی بھی ہے اور جو دینی جماعتیں اس کام میں سستی دکھا رہی ہیں ان کو اپنے رب کے سامنے جواب ضرور دینا پڑے گا۔ہماری یہ سوچ ہے کہ یہ دنیا جیسے چل رہی ہے ویسے ہی ہمیں بھی چلنا چایئے اس غلط سوچ کی ذمہ داری بھی ہمارے ان علمائے کرام کی ہے جو صرف وزارت پروٹوکول حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں پچارو اور باڈی گارڈ درکار ہیں لاکھوں روپے تنخواہ چاہئے بلکہ صرف دنیا چائیے نظام اسلام کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن نفاذ اسلام کے لئے کرتے کچھ بھی نہیں ہیں یہ دورنگی ہم کب ختم کریں گے اور قرآن و سنت کے مطابق قوانین کب بنائیں گے اور کب ان کا نفاذ ہوگا۔ یہ دعا ہے کہ اے پروردگار ہمیں نیک اور صالح قیادت عطا فرما جو تیری زمین پر تیری حکمرانی قائم کر دے (آمین)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں