79

دنیا میں انسانیت کا فقدان

دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو ہر خطہ چیخ رہا ہے‘ ہر براعظم میں کوئی نہ کوئی آتش فشاں پھٹ رہا ہے۔مشرق وسطی میں وہ چیخیں گونجتی ہیں جنھیں سننے کے لئے اقوام متحدہ کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔غزہ کی سر زمین خون سے تر ہے خون کی لاشیں‘تباہ شدہ سکول اور ہسپتال بمباری سے ملبہ کے ڈھیر ہو ئے گھر اور پانی کے لئے ترستی بستیاں یہ سب کچھ آج کے مہذب دور میں ہو رہا ہے۔

امریکہ جو کچھ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبرد ار بننے کا دعوی کیا کرتا تھا وہ آج اسرائیل کو ہتھیار مہیا کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔ کانگریس میں اگر کو ئی سیزفائرکا نام بول دے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ عالمی میڈیا جوکچھ سچ کی تلاش میں ہراول دستہ کا کام کرتاتھا وہ اب طاقتوروں کی زبان بولتا ہے۔ بی بی سی اور سی این این کی اسکرینوں پر بمباری کے مناظر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ویڈیو گیم ہو گویا انسانی زندگی ایک تماشہ بن چکی ہے یوکرین اور روس کی جنگ نے یو رپ کو اقتصادی طور پر جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں ممالک کی جنگ میں بھی سچ صرف طاقتور کے منہ سے نکلتا ہے۔ نیٹو کا کردار متنازع ہے اور روس کا رویہ جارحانہ د ونوں اطراف انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہزاروں نوجوان جوصرف اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے تو پوں کی خوراک بن گئے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کا ضمیر سکون سے سو رہا ہے کیونکہ کہ ان کی معیشتیں جنگوں سے ہی پروان چڑھتی ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کی نئی لہر آئی ہے نائجریاڈ اور مالی جیسے ممالک ایک بار پھر بندوقوں کے رحم و کر م پر آگئے ہیں۔

جمہوریت کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے اقوام عالم کو ان مظلوم خطوں کے عوام کی کوئی پرو اہ نہیں کیونکہ وہاں تیل یاگیس کے ذخائر نہیں ہیں اور نہ ہی وہاں وہ مارکیٹس ہیں۔ جہاں بڑی طاقتیں اپنی مصنوعات بیچ سکیں اس لئے ان کی اذیتیں اور پر یشانیاں کسی کو نظر نہیں آتیں اور نہ ہی کو ئی ان کی رپورٹنگ کرتا ہے چین اور امریکہ کے درمیان معاشی سردجنگ تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی میں یہ دو طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آچکی ہیں تائیوان کو لے کر کشیدگی بڑھ رہی ہے اس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن اس جھگڑے میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہیں جن کا نہ تائیوان کے آئینی موقف سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی وہ ون چائنا پالیسی کے پیچیدہ مباحث سے واقف ہیں وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب موت ہے بھوک ہے بے گھر ہونا ہے اسی دوران برطانیہ میں اسلاموفوبیانے نئی شکل اختیار کرلی ہے ایک ایسے سماج میں جہاں انسان کے بنیادی حقوق کو آئینی تخفظ حاصل ہے آج مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے یورپ میں مہاجرین کے خلاف جذبات بڑھائے جارہے ہیں سمندروں میں ڈوبتے ہوئے وہ لوگ جو صرف ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں ان کے لئے دروازے بند کر دئے گئے ہیں انسانی ہمدردی اب پاسپورٹ ویزے کی محتاج ہو چکی ہے اور ہندوستان جسے کئی جمہوریت کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کہاجاتا ہے وہاں آج مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی بھی مہذب سماج کے لئے شرم کا باعث ہے ایک ملک جو گاندھی نہروکی تعلیمات پر فخر کرتا تھا آج ہندو تو اکے پرچم تلے اقلیتوں کو دیوار سے لگائے ہوئے ہے عدالتیں خاموش میڈیا اندھا اور عوامی ضمیر بے حس ہو چکا ہے۔کشمیری نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بنتیں گویا ظلم معمول بن چکا ہے اور معمول ہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔

ایران اور افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبانے کے لئے نئے نئے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ افغانستان میں بچیاں اسکول نہیں جاسکتیں اورنہ ہی کوئی ملازمت کر سکتی ہیں ایران کی خواتین اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں توانہیں فسادفی الارض قرار دیا جاتا ہے لیکن عالمی برادری کی زیانیں تب کھلتی ہیں جب ان ممالک کے حکمران مغرب کے مخالف ہوں اگر وہ مغرب نواز ہوں توانسانی حقوق کا ذکر بھی جرم بن جاتا ہے۔ یہ کیسی دنیا ہے جہاں جمہوریت صرف اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ ہماری تزجیحات کے مطابق ہو انسانی حقوق صرف وہی ہوتے ہیں جن سے ہماری تجارت کو فائدہ ہو۔ کیا اقوام متحدہ واقعی اقوام کی نمائندہ ہے یا صرف طاقتور کا کلب بن چکی ہے؟ کیا عالمی عدالت انصاف واقعی انصاف کا ادارہ ہے یاصرف ان مقدمات کو سنتی ہے جو مغرب کی مرضی کے مطابق ہوں؟

ان سوالوں کے درمیان اگر کو ئی چیز باقی ہے تو وہ عام انسان کی ہمت اس کی مزاحمت اور اس کی امید ہے فلسطین کی ماں جب ملبے میں دبے بچے کو اٹھاتی ہے اور کہتی ہے ہم ہارے نہیں ہیں تو وہ پو ری انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے یو کرین کا وہ رضا کار جوزخموں سے چور ہو کر بھی ہسپتال میں بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس دنیا کی آخری کرن ہے۔ ایرانی لڑکیاں جو کتابوں کو سینے سے لگائے سڑکوں پر نکلتی ہیں وہ آنے والے وقت کی نوید ہیں اس وقت ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوناہے بغیر اس کے مہذہب،رنگ،نسل،قومیت یا ریاستی شناخت کو دیکھتے ہو ئے ہمیں اپنی ہمدردی کو عالمی بنانا ہو گا کیونکہ آج جو ظلم کسی اور کے دروازے پر ہو رہاہے وہ کل ہمارے دروازے پر دستک دے سکتاہے۔
ہمیں ان مظلوموں کی آواز بنناہے جن کے پاس میڈیا نہیں جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ نہیں بن سکتے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر نہیں آتے یہ دنیا یہ سر زمین سب انسانوں کی مشرکہ وراثت ہے اسے خون سے نہیں بلکہ محبت سے سیچنے کی ضرورت ہے اوریہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جوسچ کے لئے قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے۔

دنیا بھر میں ہر طرف ظلم و ستم اور بے حسی کا دور دور ہے کو شش یہی ہے کہ ان زخموں پر صرف مرہم رکھاجائے بلکہ ان کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کیا جا ئے کیونکہ سچ کہنا سچ سننا اور سچ لکھنا ہی اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت ہے اب اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معاشرے میں انسانیت کا فقدان نظر آئے گا انسان کم اور شیطان زیادہ،حرص وہوس مال وزرکے بھوکے اور پیسے کی چمک کے بچاری نظر آئیں گے۔

مال کیسے آسکتا ہے اسی سوچ میں غلطاں وفکر مند دکھائی دیتے نظر آئیں گے ہر طرف پیسہ پیسہ کرتے مال ناحق بٹو رتے دھوکہ دیتے دکھائی دیں گے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سوار ایسی کشتی میں ہیں جو یونان کی کشتی ہے جس میں بیٹھے افراد کے پاس اپنے روشن مستقبل کے سہانے سپنے ضرور ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ مو ت کا گھر ہے منزل کاٹھکانہ نہیں
ہے۔ بال بچوں کے لئے فخر کی جاہ نہیں بلکہ عبرت کا مقام ہے بیرون ملک جیسا خوبصورت جہاں نہیں بلکہ ریت کا محل ہے یہاں زندگی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف بکھری ٹوٹتی حسرتوں کا سامان ہے اور کچھ بھی نہیں جہاں اندھیرا اور صرف اندھیرا ہے۔

اس زمانے میں آدمی تو بہت ملیں گے لیکن انسان نہیں انسانیت وہ اعلی منزل ہے جس کی بنیاد پر آدمی فرشتوں سے بھی افضل قرار پاتا ہے اور اگر کسی میں انسانیت نہیں تو و ہ آدمی جانور سے بھی بدتر ہے ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ اخلاق کے بغیر انسانیت نا مکمل ہے کسی بھی با شعور معاشرے میں اخلاقیات کی بہت اہمیت ہو تی ہے۔اخلاق کی پابندی سے معاشرے میں شعور کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقیات و انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں دکھائی دیتی چھوٹی موٹی چوریاں کرنا دوسروں کا حق مارنا دوسروں کی تحقیر کرنا غیبت اور بہتان تراشی بہت عام چیزیں ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لو گ بھی بنیادی اخلاقیات سے عاری ہیں اگر ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں تو نہ صرف دنیا کے نقشے پر ایک بااصول اور باصلاحیت قوم بن کر ابھریں گے بلکہ عظمت انسانیت کی بہترین مثال بھی ثابت ہوں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں