دعویٰ

عبدالجبار چوہدری
دعوی کا معنی یوں کیا جاتا ہے کہ کسی ایسی چیز کا اعلان کرنا جس کے نتیجہ کا مکمل یقین ہو یا اس کی موجودگی کا کامل بھروسہ ہو یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کام یا بات میں حیل و جت ، بہانہ، اندازہ سب خارج از امکان ہوتے ہیں ایک حکیم کے شائع شدہ پمفلٹ میں کئی امراض کی شفایابی کے اعلانات درج ہوتے ہیں مگر دعویٰ نہیں ہوتا اس کے تجربات میں چند چیزیں آتی ہیں ان کا اعلان در حقیت دعویٰ نہیں ہوتا بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس مرض یا بیماری کی موجودگی کی صورت میں یہ دوائی کار آمد ہو سکتی ہے نتیجہ حق میں بھی آ سکتا ہے اور مخالفت میں بھی دونوں طرح کے امکانات برابر ہوتے ہیں جبکہ اس کے معاملہ میں ڈاکٹر جو تشخیص کرتاہے اس کے لیے کئی لیبارٹری ٹیسٹ کراتا ہے، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے اور پھر علاج شروع کرتا ہے علاج کی صورت میں صحت یابی کا دعویٰ ڈاکٹر کرے تو یقین کر لینا ضروری ہوتا ہے ایک سائنسدان جب کسی چیز کی ایجاد یا دریافت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے پیچھے مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا نتیجہ اس کے دعویٰ کی بنیاد ہوتا ہے جو نہ صرف قابل اعتبار ہوتا ہے بلکہ اس دعویٰ پر یقین کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہوتا زرعی اجناس کی کاشت کے وقت موسمی حالات ، بیج ،کھاد کے استعمال اور زمین کی تیاری کو مد نظر رکھ کر اچھی پیداوار کا دعویٰ کیا جاتا ہے اگر ان میں سے ایک چیز بھی مخالفت میں چلی جائے بیج اچھانہ ہو ، موسم ساتھ نہ دے یا زمین کی تیاری میں کوئی کمی رہ جائے تو اچھی پیداوار دعویٰ کے مطابق حاصل نہیں کی جا سکتی معیاری تعلیم کے حصول کے لیے بہترین اساتذہ اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے کے انتخاب مالی وسائل کے و افر ہونے کے ساتھ ساتھ طالب علم کا ذہین ہونا ضروری ہوتا ہے ان میں سے کسی ایک کے نا پید ہونے کی صورت میں اعلیٰ تعلیم کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا یہ فطری اصول کے مطابق دعوے ہیں جو کہ ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے اندر پائے جاتے ہیں ترقی پذیر ممالک میں جو دعوے کئے جاتے ہیں وہ انسانی ارادوں کی شکست و ریخت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے تجربات کی بنا پر کئے جاتے ہیں زیادہ تر زبانی دعوے ایسے ذہن کی اختراع ہوتے ہیں جو دوسروں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ، مالی و سائل اور معاشرتی مقام کا مالک ہوتا ہے کم کوش ، محنت سے عار اور مقصد کے حصول کا یقین نہ رکھنے ولاے دن میں کئی ایک دعوے کرتے ہیں اور اگلے دن ہی سب بھول جاتے ہیں بڑے بڑے اہداف کے حصول کی منصوبہ بندی تو کجا ان کے بارے میں سوچنا بھی ہم نے چھوڑ رکھا ہے ایک بات گزشتہ دنوں نظروں سے گزری کے دُعا پڑھنی نہیں بلکہ مانگنی چاہیے دُعا جیسی ہمکلامی کو ہم مسلمانوں نے خود کلامی میں بدل رکھا ہے دعا کوآج شیریں سخنی بنا دیاگیا ہے آج مسلمانوں کی اکثریت دُعا کی مقبولیت کا دعویٰ کرنے سے قاصر ہے اس کے نتیجہ کے بارے میں یقین تو بہت دور کی بات ہے حال ہی میں سپہ سالار افواج پاکستان اور ائیر چیف مارشل پاکستان ائیر فورس نے ایک سمینار میں اسلحہ ، دیگر جنگی سازو سامان یہاں تک کہ جنگی جہازوں کی تیاری کے سلسلہ میں خود انحصاری کا دعویٰ کیا ہے اس دعویٰ کے پیچھے گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہمارے سائنسدانوں ، انجینرز ،ورکروں اور اسلحہ ساز فیکڑیوں کی دن رات کی محنت ہے یہ کام کرنے کے بعد ہی ہم دُنیا کے سامنے دعویٰ کرنے کے قابل ہوئے ہیں آج ہماری افواج کے سپہ سالاردنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ ایک ہمارے سیاستدان ہیں جو بد قسمتی سے حکومت کرنے کا درجہ بھی رکھتے ہیں صرف زبانی دعووں سے ہی نہیں نکل سکے اپنی کارکردگی کو زبان کے ذریعے منوانے کے درپے آج بھی ہیں عملی کام کرنے کے لئے منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ 270ممبران قومی اسمبلی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے اور آئین پاکستان کی بنیاد کے مخالف اور مسلمانوں کے ایمان کو ختم کرنے والی ترمیم کے حق میں ووٹ دے دئیے اس کے باوجود خود کو بری الذمہ تصور کئے بیٹھے ہیں اور دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم ذمہ دار نہیں ہمسایہ ملک چین کا0 10کی ممالک کی تقدیر بدل کر رکھ دینے کا دعویٰ کرنے والے منصوبہ CPECکے ترجمان ہمارے سیاستدان بنے ہوئے ہیں یہ منصوبہ پاکستانی سیاستدانوں کی ذہنی اختراع نہیں اور نہ ہی یہ اس کی صحیح ترجمانی کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر دعوےٰ ضرور کر رہے ہیں کہ اس سے ہماری 20کروڑ عوام کو زندگی کی ہر آسائش میسر آ جائے گی جتنے بھی منصوبے سیاستدانوں نے اس وقت شروع کر رکھے ہیں کوئی بھی طویل مدت تک عوام کے لیے نہیں صرف ناقص خام مال کی کھپت کے یہ منصوبہ جات چند سالوں میں ہی زمین بوس ہو جائیں گے ان میں میٹرو بس منصوبہ سر فہرست ہوگا جس طرح کی منصوبہ بندی ہم ذاتی مکان، پلازہ، فیکٹری بنانے کی کرتے ہیں اور ہر لحاظ سے اسے مضبوط کئی سالوں تک آگے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بناتے ہیں، اچھے میٹریل کا استعمال اور بہترین کاریگروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں کیا اس طرح کا جذبہ، محنت ، اور محبت ہم سرکاری پیسے سے بننے والے منصوبہ یا کام کے لیے بھی رکھتے ہیں اور پھر دعویٰ حب الوطنی کا کرتے ہیں صف اول کی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کو کرپشن سے پاک کرنے، انتظامی اداروں بشمول عدالتیں، پولیس، محکمہ مال کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی خاطر بہت سی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اگر وہ اس دعویٰ میں ناکام ہوتے ہیں تویہ سیاستدانوں کے لیے ملک کی خدمت کا آخری موقع ہوگا کامیابی کی صورت میں کئی سال سیاستدان راج کرسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں