دعویٰ نہیں کردار

اسلام سے قبل عرب معاشرہ چند خوبیوں مہمان نوازی وعدے کی پاسداری بہادری اور سخاوت کے علاوہ ان گنت برائیوں میں غرق تھا قبائلی عصبیت و نسلی تفاخر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلواریں نکل آتیں اور پھر سالہا سال لڑائیاں جاری رہتیں انتقام لینا زندگی کا مقصد بن جاتا تھا بچہ پیدا ہوتا تو اسے نفرت دشمنی اور انتقام کی گھٹی دی جاتی جھوٹ، چوری، دھوکہ فریب، زنا، قمار بازی، فحاشی و عریانی عام تھی شادیوں کی کوئی حد نہ تھی بیک وقت دو سگی بہنوں یہاں تک کہ سوتیلی ماں سے بھی نکاح جائز تھا شراب اور جوا کے تو رسیا تھے عورت جس کے بطن سے خود پیدا ہوئے وہ اچھی تھی اور عورت کے ساتھ شادی پر شادیانے بجاتے نہیں تھکتے تھے لیکن جب وہی عورت بیٹی کے روپ میں گھر میں پیدا ہوتی ہے تو لال پیلے پڑ جاتے اور اس کو قتل کر دیتے بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے الغرض ہر قسم کی بری خصلت ان میں پائی جاتی تھی اسی اثناء میں نبی مکرم،نور مجسم،رحمت عالم ہادی کونین محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ ہوئی انہوں نے اس اخلاق و کردار سے کوسوں دور قوم کو اپنے اخلاق کریمانہ کا آہستہ آہستہ گرویدہ کر لیا ان کو یہ اخلاقی اقدار اتنی پسند آئیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں دیوانے ہو گئے اسی دیوانہ پن کو صلح حدیبیہ کے موقعے پر دیکھ کر عروہ بن مسعود نے کہا تھا وہ اہلِ مکّہ کی طرف سے وفد کے قائد بنا کر بھیجے گئے تھے وہ حیرانی سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرزِ عمل دیکھتے رہے اور واپس جاکر قریش سے یوں مخاطب ہوئے اے اہلِ مکّہ (حضرت) محمّد(ﷺ) کا خون بہانا کیسے ممکن ہے جب کہ اُن کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُن کے وضو کے بچے پانی تک کو زمین پر نہیں گرنے دیتے وہ اس پانی کے حصول کے لیے یوں گرتے ہیں جیسے باہم لڑ پڑیں گے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب (مبارک) کو اپنے منہ پر مَل لیتے ہیں اور تعظیم کا یہ حال ہے کہ آپؐ کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے میں قیصر و کسریٰ کے ہاں بھی گیا ہوں نجاشی کا دربار بھی دیکھا ہے مگر اصحابِ محمّدﷺ جو تعظیم محمّدﷺ کی کرتے ہیں وہ کسی بادشاہ کو بھی اپنے محل میں حاصل نہیں وہ رحمت کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے عشق و محبت میں ایسے فنا ہوئے کہ ان کو جو بھی حکم آ جاتا وہ بلا چون و چرا آمنا و صدقنا کہتے جسے عرب معاشرہ میں گنے چنے افراد کے علاؤہ سب لوگ شراب کے رسیا تھے وہ اس کو پانی کی طرح استعمال کرتے تھے اتنے عادی ہونے کے باوجود جب شراب کا حکم نازل ہوا تو بلا چون وچرا یکدم اس سے علیحدگی اختیار کر لی حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک قبیلہ میں کھڑا میں اپنے چچاؤں کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا میں ان میں سب سے کم عمر تھا کسی نے کہا کہ شراب حرام کر دی گئی ان حضرات نے کہا کہ اب اسے پھینک دو چنانچہ ہم نے شراب پھینک دی میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کس چیز کی شراب بنتی تھی فرمایا کہ تازہ پکی ہوئی اور کچی کھجوروں کی ابوبکر بن انس نے کہا کہ ان کی شراب (کھجور کی) ہوتی تھی تو انس رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار نہیں کیا اور مجھ سے میرے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں ان کی شراب اکثر کچی اور پکی کھجور سے تیار کی جاتی تھی (بخاری حدیث نمبر5583) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے (پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے انہوں نے کہا (یہ سنتے ہی) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی تو بعض لوگوں نے کہا یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا?» ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے جو پہلے کھا چکے ہیں (آخر آیت تک) (بخآری حدیث نمبر 2464) اسی طرح تحویل قبلہ کا واقعہ دیکھ لیں اسی طرح کے اور بے شمار واقعات سے سیرت کی کتب بھری پڑی ہیں یہ تھی محبت و عقیدت جس نے ان کی زندگیوں کی کایا ہی پلٹ دی تھی جھوٹ فریب غیبت دھوکہ دھی نفرت دشمنی انتقام چوری ڈاکہ ظلم و زیادتی فحاشی و عریانی نام کی چیز ان کی زندگیوں میں نہیں رہی بلکہ محبت الفت مودت نیکی پاکیزگی حیا سچ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا جو ان کو دیکھتا ان ہی کا ھو کر رہ جاتا اسلام بھی ان ہی پاکیزہ کرداروں سے پھیلا ہے یہ تو تھے قرون اولیٰ کے مسلمان لیکن آج ہمارا بھی دعویٰ یہی ہے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ آتا ہے ہم اس کو بڑی ہی محبت عقیدت و احترام اور اہتمام سے مناتے ہیں گھروں میں چراغاں کرتے ہیں گلی محلوں کو سجاتے ہیں جلوس نکالتے ہیں محافل کو سجاتے ہیں اس میں بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں غلام ہیں غلام ہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موت بھی قبول ہے جو نہ ہو عشق نبی تو زندگی فضول ہے اب ایک اور نعرہ بھی آگیا ہے لبیک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نعرے تو جلسے جلوسوں میں زبان زدِ عام رہتے ہیں جبکہ ہمارے اخلاق و کردار اس کا الٹ ظاہر کرتے ہیں الاماشاء اللہ نماز ہم نہیں پڑھتے جو مومن کی معراج ہے رمضان آئے تو ہم بیمار ہوتے ہیں ہرہر بات پر جھوٹ ہماری عادت بن چکی ہے ہماری گفتگو میں اتنا لچر پن آ چکا ہے کہ الامان و الحفیظ ہر بات پر گالی یہ عام آدمی کی صرف بات نہیں بلکہ یہ خواص آلا ماشاء اللہ علماء کرام کی بھی حالت ہو چکی ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو گالی دی تو جواب نفی میں تو پھر ھم ایسا انداز گفتار کیوں اپنا رہے ہیں اس انداز سے کس کو خوش کرتے ہیں محاشی وعریانی اور فحش باتوں میں تو ہم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس کو نام دیا ہے ماڈرن ازم کا الغرض کون سی ایسی برائی ہے جو آج ہم میں نہیں لیکن دعوے غلامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ دعویٰ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی اتباع پیروی کی جائے ان کی سیرت اپنائی جائے ان کے اخلاق و کردار کی خیرات لی جائے تب ہم اپنے دعویٰ میں سچے ہوں گے ہمیں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوی کو کردار سے ثابت کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں