زندگی کے اس چھوٹے سے واقعے میں چھپا سبق بہت گہرا اور معنی خیز ہے۔ ایک پتھر جو راستے کے کنارے پڑا رہتا تھا، لوگوں کے قدموں اور ٹھوکروں کا بوجھ سہتا تھا، مگر اس کی طرف کسی کی توجہ نہ جاتی تھی۔ بے مقصدی اور بے قدری کا احساس اس کے وجود پر چھایا رہتا۔ وہ اپنے اردگرد کی مخلوقات کو دیکھتا—پھول جو خوشبو بکھیرتے ہیں، درخت جو سایہ دیتے ہیں—اور سوچتا کہ اللہ نے انہیں تو کوئی نہ کوئی فائدہ دیا ہے، مگر وہ خود تو بس ایک بے جان پتھر کی طرح پڑا ہے، جس کی کسی کو ضرورت نہیں۔ یہی احساس اسے اندر ہی اندر کھائے جاتا تھا۔
لیکن پھر ایک دن قسمت نے کروٹ لی۔ ایک کاریگر ادھر سے گزرا، اس نے اس عام سے پتھر کو دیکھا اور بغیر سوچے اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ پتھر حیران تھا کہ آخر اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اسے لگتا تھا شاید یہی اس کا انجام ہے، شاید کاریگر اسے توڑ دے گا یا اس کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ مگر حقیقت اس کی سوچ سے کہیں مختلف تھی۔
کاریگر نے ہتھوڑا اور چھینی اٹھائی اور پتھر کو تراشنا شروع کیا۔ پتھر کے وجود پر ہر ضرب ایک درد بن کر اُبھرتی، ہر کٹ اسے تکلیف دیتا، لیکن کاریگر کے ہاتھ نہیں رُکے۔ پتھر کے لیے یہ عمل جیسے آزمائشوں کا سلسلہ تھا جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا تھا۔ مگر وہ خاموش رہا، برداشت کرتا رہا۔ اسے نہ لگتا تھا کہ یہ درد کسی خوبصورت انجام کا آغاز ہو سکتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور کاریگر مسلسل اپنی محنت میں مصروف رہا۔ وہ جانتا تھا کہ پتھر میں چھپی خوبصورتی کو کیسے باہر نکالنا ہے، کیسے ایک بےجان ٹکڑے کو فن پارے میں بدلنا ہے۔ آہستہ آہستہ پتھر کی شکل بدلنے لگی، اس میں نکھار آنے لگا، اور بالآخر وہ لمحہ آیا جب کاریگر نے اپنا کام مکمل کر لیا۔
اب وہ پتھر ایک عام پتھر نہیں رہا تھا، ایک خوبصورت فن پارہ بن چکا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ جاتے، تصاویر بناتے، اس کی تعریف کرتے۔ جس پتھر کو کبھی کسی نے نظر بھر کر دیکھا تک نہیں تھا، وہ اب سب کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔ اس کے وجود میں وہ وقار آ گیا تھا جو اسے کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔
اس لمحے پتھر نے اپنے دل میں کہا کہ جو درد اسے سہنا پڑا، وہ بےکار نہیں تھا۔ اگر اسے تراشا نہ جاتا، تو وہ ہمیشہ مٹی میں پڑا رہتا، لوگوں کے قدموں تلے دب کر اپنی پہچان کھو دیتا۔ اس کی تکلیف نے ہی اسے اپنے اصل مقام تک پہنچایا، اس کے اندر وہ حسن پیدا کیا جو پہلے پوشیدہ تھا۔
یہ واقعہ محض ایک پتھر کی کہانی نہیں، بلکہ انسان کی زندگی کا آئینہ ہے۔ زندگی میں جو مشکلات، دکھ اور آزمائشیں آتی ہیں، وہ بھی اسی ہتھوڑے اور چھینی کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ تکلیفیں ہمیں توڑنے کے لیے نہیں بلکہ سنوارنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ہر چوٹ کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے، ہر دکھ میں ایک چھپا ہوا انعام ہوتا ہے۔
جو شخص مشکلات سے گھبرا کر ہار مان لیتا ہے، وہ خود کو نکھارنے کا موقع کھو دیتا ہے۔ لیکن جو صبر سے برداشت کرتا ہے، جو سمجھتا ہے کہ ہر آزمائش ایک تربیت ہے، وہی آخرکار روشنی میں آتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں، بالکل اسی پتھر کی طرح جسے کبھی کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا، مگر جسے تراشنے کے بعد سب نے سراہا۔
زندگی کی راہوں میں ملنے والے دکھ، تکلیفیں اور رکاوٹیں دراصل وہ ذریعہ ہیں جن سے انسان کی شخصیت مضبوط ہوتی ہے۔ یہ ہمیں ہمارے اندر چھپی صلاحیتوں سے روشناس کرواتی ہیں، ہمیں مضبوط، سمجھدار اور قابلِ قدر بناتی ہیں۔
اس لیے جب بھی زندگی میں کوئی مشکل آئے، تو اسے سزا نہیں، تراشنے کا عمل سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہی وہ مراحل ہیں جن سے گزر کر انسان اپنی اصل پہچان اور خوبصورتی تک پہنچتا ہے۔ جو صبر اور یقین کے ساتھ یہ سفر طے کرتا ہے، وہی ایک دن سب کی نگاہوں میں وقار اور روشنی بن کر اُبھرتا ہے۔