دراصل وقت بہت بڑا ٹرینر ہے

شاہد جمیل منہاس/کون کہتا ہے کہ ہر کام کے لیئے تربیت یا ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے کبھی اُس ماں کو دیکھا جس کا بچہ بیمار ہو اور وہ کتنے سلیقے اور ترتیب سے دُعا مانگ رہی ہوتی ہے۔ اُس ماں کو تو کسی نے نہیں بتایا کہ ربّ سے دُعا ایسے مانگتے ہیں کہ وہ فوراً قبول کر لے۔ دراصل وقت بہت بڑا ٹرینر ہے جو کم اور بے عقل افراد کو بھی ترتیب والا بنا دیتا ہے۔ ورنہ خوشحال اور آسودہ بے شمار افراد کو ہم نے ہر ہُنرسے عاری پایا اور خامیاں اُن کے مقدر کاحصہ بنی رہیں۔ زندگی ایک خاص ترتیب اور تواتر کا نام ہے۔ اس میں ذرّہ برابر بھی اگر خلل آتا ہے تو سب محنت ضائع۔ جن گھروں کے افراد اذّان کے وقت جاگ جاتے ہیں وہ سارا دن خوش اور خوشحال اور ترتیب والے رہتے ہیں اور جن گھروں میں والدین رات کو دیر سے سوتے ہیں اور دن کو جاگ گئے تو ٹھیک ورنہ رات کو جاگتے رہتے ہیں اور صبح سو جاتے ہیں، وہاں نحوست ڈیرے ڈال لیا کرتی ہے۔ یہ فلسفہ اسلام میں بہت مقبول اور پسندیدہ رہا جس کو اپنانے والوں نے زندگی میں کامیابیاں حاصل کیں، کبھی خودپر تو کبھی اولادوں کے نصیب پر رشک پایا۔ صبح صادق کے وقت چڑیاں ربّ کا ذکر کر رہی ہوتی ہیں۔ دُنیا کا ہر مہذب انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ کامیاب اس لیئے ہے کہ وہ وقت کا انتہا درجے کا پابند ہے۔ وقت کا پابند ہونے کے لیئے اچھی تربیت انسان کو اپنے گھر سے ملتی ہے۔ اپنے والدین بڑے بھائیوں یا بڑی بہنوں سے اور بڑے بہن بھائیوں کو جو تربیت ملتی ہے وہ والدین ہی سے ملتی ہے۔ لہذا آج ہم اپنی اولادوں کے سامنے جو لائیو پرفارمینس دے رہے ہیں کل کو یہ ریکارڈنگ کی صورت میں بچے اپنے اذہان میں محفوظ رکھیں گے اور اللہ نہ کرے بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے بزرگ جب اپنی اولاد میں سے کسی کو پانی کے ایک پیالے کے لیئے آواز دیتے ہیں تو وہ آواز اس کے لیئے کوئی معانی نہیں رکھتی کیونکہ اُس نے آپکو اپنے والدین کے ساتھ ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ لہذا تصور تک نہیں کر سکتے کہ والدین کی بات کو ٹال دینا کسی گناہ یا بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہو اکہ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے ہماری اولاد میں سے کوئی ایک یا سب نماز نہیں پڑھتے اور روزہ نہیں رکھتے یا کوئی بھی بھلائی کا کام نہیں کرتے تو یہ سب گناہ والدین اور خاص طور پر والد کے سر جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے تو اپنے بچوں کو یہ تربیت اور ترتیب دی ہی نہیں ہوتی۔ میرے ابّو کہا کرتے تھے کہ گھر میں کوئی مہمان آ جائے، چاہے وہ آپ کا جاننے والا یا نہ ہو۔ آپ اپنے کمرے سے نکل کر با ادّب ہو کر سلام کریں اور پھر واپس اپنا کام شروع کردیں۔ دراصل صرف اسی ایک بات ہی سے بچہ ٹریننگ کی پٹٹری پرچل پڑتا ہے اور ساری زندگی دوسروں یعنی پزرگوں کی دُعائیں سمیٹتا رہتا ہے۔ اور پھر دُعا سے بڑا تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی باپ ابھی تک فوت نہیں ہوا تو اُسے چاہیے کہ ہر اچھا کام وہ پہلے خود کرے اور پھر اُس کے بعد گھر والوں پر بار بار زور دے۔ ایک وقت آئے گا کہ ساری دُنیا تربیت اور ترتیب کے سانچے میں ڈھل جائے گی۔ اور یہ سب صدقہ جاریہ بن کر ابدی زندگی تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ ورنہ دوٹانگوں والے اور چار ٹانگوں والے جانور سب برابر ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ چار ٹانگوں والے جانورسانس بند ہوتے ہی ختم ہو جائیں گے۔ ان کے لیئے نہ تو جہنم ہے اور نہ ہی جنت۔مگر دو ٹانگوں والے جانور دُنیا میں گُناہ سمیٹتے ہوئے مر جائیں گے اور مرتے ہی دوذخ کی آگ ان کے جسموں سے جلائی اور بھڑکائی جائے گی۔ یہ دُنیا بڑی پیاری اور آسان بھی ہے اگر ہم دل میں خوف خدا رکھ کر زندہ رہیں۔جہاں تک ہو سکے ریاکاری سے بچیں۔ کیونکہ ریاکاری کا مطلب ہے کہ آپ نعوذبااللہ خداکے سامنے آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا شخص نہ تو اسلام کا باسی ہے اور نہ ہی کُفر کا رہائشی، وہ تو بس مرتد ہوااور مرتداس دُنیا میں بھی ذلیل اور آخرت میں بھی خوار۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ریاکاری اور تکبر سے بچائے آمین۔ ایک بات یاد آئی سو چابتاتا چلوں۔ کسی دوست نے بتایا کہ ایک جاننے والے ہیں اوروہ بہت پڑھے لکھے ہیں اُنکی اولاد بھی بہت تعلیم یافتہ ہے۔ مگر ایک خامی اس خاندان کی ساری محنت کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ بچپن میں اس شخص کا والد اس دُنیا سے پردہ پا گیا۔ اُس کے بڑے بھائیوں نے اُس کو اور اس کے دوسرے بھائیوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھایا لکھایا اور آج وہ خوشخال زندگی گزار ہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے بھائی والدین کی طرح ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بڑھ کر کیونکہ اولاد کی تربیت اوراُن کی خوراک والدین کا فرض ہے۔ مگر بھائیوں کا یہ فرض ہر گز نہیں ہے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیئے راتوں کو بھوکا سوئیں۔ ہاں البتہ ہر معاشرہ اور خاص طور پر اسلام ایسے افراد کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اب جبکہ اُس کے بڑے بھائی بڑھاپے کی طرف جا رہے ہیں اور کافی حد تک تنگ دست بھی ہیں تو وہ شخص اپنے بھائیوں سے ملنا تک گوارہ نہیں کرتا۔ اور بڑی بڑی گاڑیوں میں سینہ تان کر گھومتا ہے۔ اُس آدمی کے دوست اور رشتہ دار انتہائی حیران ہوتے ہیں کہ جس انسان کو اُسکے بھائیوں نے زمین سے آسمان تک پہنچایاوہ آج اُن کا تعارف تک کروانا گوارہ نہیں کرتا۔ دوستویہ کہانی گوجرانوالہ کے ایک گاؤں کی سچی کہانی ہے۔ اب ایسی کہانی کو آنکھیں بند کر کے اپنی برادری اور محلوں میں تلاش کریں تو ایسے بے شمار پڑھے لکھے جاہل آپکو نظر آئیں گے کہ جو خود جہنم کی طرف جا رہے ہیں اور اپنے معصوم بچوں کو بھی ایسے راستے کا مسافر بنا دیا۔ وہ بتاتا تھا کہ جب کوئی بزرگ یا غریب انسان ان کے پاس سے گزرتا تو وہ اور اُس آدمی کے بچے اُس انسان پر قہقہ لگاتے اور تمسخر اُڑاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے افراد خدا سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم کہ اُن جیسے افراد پر خُدا کی ذات دُنیا میں کوئی قہر نازل نہیں کرتی اور ایسے افراد اتنے کم ظرف اورکمزور ہوتے ہیں کہ اس دُنیا میں بھی قابل رحم اور آخرت میں بھی جہنم اُن کے انتظار میں آگ نما پھولوں کی پتیاں لے کر کھڑی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں