داستان ظلم بڑی ہی طویل ہے

محمد شہزاد نقشبندی/25 اپریل 1809 کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور رنجیت سنگھ جو تخت لاہور جس میں تقریباً پورا پنجاب شامل تھا کا مہاراجہ تھا کے مابین ایک معاہدہ ہوا جسے معاہدہ لاہور بھی کہتے ہیں فریقین اپنے اپنے علاقوں میں امن و آتشی کے ساتھ رہیں گے کوئی فریق بھی دوسرے فریق کے ساتھ اشتعال انگیزی نہیں کرے گا 1819 میں رنجیت سنگھ نے افغان گورنر جبار خان کو شکست دے کر کشمیر کو اپنے زیر نگیں کرلیا رنجیت سنگھ کے دور اقتدار تک تو فریقین معاہدے کے پابند رہے 1839 میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کے نااہل جان نشینوں نے اپنی ریاست کو اندر سے بھی کمزور کردیا اور ساتھ ہی ساتھ انگریز راج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جس نے بالآخر ایک جنگ کی صورت اختیار کر لی یہ پہلی جنگ تھی جو انگریز راج اور سکھوں کے درمیان 13 دسمبر 1845 کو لڑی گئی اس کو پہلی اینگلور سکھ جنگ بھی کہتے ہیں اس جنگ میں سکھوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اس طرح معاہدہ لاہور کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے جنگی اخراجات اور زر تاوان کا مطالبہ کیا جو تقریباً ڈیڑھ کروڑ تھے دلیب سنگھ جو اس وقت تخت لاہور پر بیٹھا تھا اخراجات ادا نہ کر سکا اس کے بدلے 9 مارچ 1846 کو جموں وکشمیر کا علاقہ انگریزوں نے اپنے قبضہ میں کر لیااورساتھ ہی 16 مارچ 1846 کو گلاب سنگھ ڈوگرہ کو 75 لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض بیچ دیا جسے معاہدہ امرتسر کہتے ہیں جو پہلے بھی کشمیر کا راجہ رہ چکا تھا یہ گلاب سنگھ کو اس کی غداری پر انعام کے طور پر دیا گیا تھا جو اس نے سکھوں کے ساتھ جنگ کے دوران خفیہ معلومات فراہم کرکے کی تھی اور انہی معلومات کی بنا پر انگریز بہادر کو سکھوں کے خلاف فتح حاصل ہوئی تھی اسی طرح تقسیم ہند کے وقت انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے گرداسپور کا علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود انڈیا کو دے دیا گیا تاکہ انڈیا کو کشمیر کا راستہ مل سکے تقسیم ہند کے وقت گلاب سنگھ ڈوگرہ نے تمام اصولوں اور ضابطوں اپنی رعایا کی خواہشات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے انڈیا کے ساتھ الحاق کر دیا اس معاہدے پر 26 اکتوبر انیس سو سینتالیس کو دستخط ہوے معاہدے کے مطابق بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر کی دفاع و خارجہ اور مواصلات کے شعبہ جات ہوں گے باقی یہ ریاست اپنے معاملات میں خود مختار ہوگی انڈیا کے ساتھ الحاق کے اعلان کے ساتھ ہی پورے کشمیر میں احتجاج شروع ہو گیا بھارت نے ستائیس اکتوبر کو ہوائی جہاز کے ذریعے اپنی فوج کو کشمیر میں اتار دیا تاکہ ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے بھارت کی اس مداخلت پر بھارت اور پاکستان کی پہلی جنگ شروع ہوئی اسی جنگ میں پاکستان اور خاص کر ہمارے علاقے کا فخر پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن محمد سرور شہید نے 27جولائی 1948 کو اوڑی سیکٹر(جموں وکشمیر) میں دشمن کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا جام پیا 27 اکتوبر 1959کو نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا گیا اس جنگ میں غیور قبائلی لوگوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی بھرپور مدد کی اور پاک فوج کے شانہ بشانہ بڑی جوان مردی سے ہندی فوج کا مقابلہ کیا اور موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ بھارتی فوج سے آزاد کروا لیا ممکن تھا سارا کشمیر ہی آزاد کروا لیا جاتا بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے حالات کی نزاکت کو بھانپ لیا اور اقوام متحدہ میں دہائی دے دی اس طرح یکم جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا لیکن آج تک رائے شماری ہم نہیں کرائی جا سکی اس وقت تک اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق میں 18 قراردادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں اب تو بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے 2019 میں انڈیا نے ایک آئینی ترمیم منظور کی جس کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ اور نیم خودمختاری ختم کر کے جموں و کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام صوبائی درجہ دے دیا گیا یہ مختصر سی تاریخ آپ کے سامنے یہ باور کرانے کے لئے رکھی کہ ان مظلوم و مجبور کشمیری عوام پر ظلم و ستم آج سے نہیں ڈھایا جا رہا بلکہ یہ تقریبا دو صدیوں سے جاری و ساری ہے سکھوں کی اسلام دشمنی کی داستانیں زبان زد عام ہیں آپ نے دیکھا سکھوں اور انگریزوں نے کیسے انسانیت کی تذلیل کی کبھی انگریز تاوان کے بدلے زمین کے ساتھ ساتھ انسانوں کو خرید لیتے ہیں تو کبھی بیچ دیتے ہیں جیسے بھیڑ بکریوں کو بیچا جاتا ہے پھر ڈوگرا سرکار انڈیا کے قدموں پر نچھاور کر دیتا ہے قوم کی برداشت پر قربان جاہیں جو نسل در نسل یہ ظلم وستم برداشت کر رہی ہے اور دنیا کے سامنے کوئی شنوائی نہیں پاکستانی وزارت خارجہ کو اور کشمیر کمیٹی کو فعال کرنا ہو گا سب سے پہلے امت مسلمہ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہر جگہ مسلمان ہی مظلوم کیوں پھر مل کر اقوام عالم کو ان کی مظلومیت بے بسی اور بے کسی کا مداوا کرنے کے لیے مجبور کرنا ہو گا تاکہ ان کو اس ظلم و ستم جبر و اکراہ سے نجات مل سکے کیونکہ یہ داستان ظلم بڑی طویل ہے اب اس زنجیر کو ٹوٹنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں