123

خوف کا اَسیر

انسان کی ازلی خواہش ہے کہ اُسے خوشیوں بھری پر سکون زندگی میسر آئے۔ اس منزل کے حصول کے لیے وہ اسباب جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ پھر اِس جمع جوڑ کی فکر میں تمام عمر وہ بے سکون رہتا ہے۔ مگر افسوس! یہ راز اُس پر پوری طرح آشکار نہیں ہو پاتا کہ سچی خوشی اور قلبی سکون جیسی نعمتیں تو تقسیم کرنے سے ملتی ہیں جمع کرنے سے نہیں۔ مال جمع کرنے سے تو چھن جانے کا خوف بڑھتا ہے۔ اوریہ ڈر آخر کارایک انسان کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پرظلم کرنے کی طرف مائل کرتا ہے تا کہ دیگر لوگوں میں کبھی اتنی ہمت ہی پیدا نہ ہو کہ وہ اُس سے اُس کا مال و مقام چھیننے کے قابل ہو سکیں۔ ظالم بنیادی طور پر اپنے خوف کا اسیر ایک بزدل شخص ہی ہوتا ہے۔ (نادیہ افتخار)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں