خواجہ نظام کا ورودِدلی

حضرت نظام الدین اولیا ء نے بدایوں میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کر لی اس وقت انکی عمر 16برس تھی مزید تحصیل علم کا شوق فراواں موجود تھا۔ اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ساتھ دلی آگئے۔ دلی اس وقت حکومت اقتدار کا مرکز تھا اور اس شہر میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال موجود تھے۔ تا تاریوں کی بڑھتی ہوئی یورشوں کی وجہ سے مملکت اسلامیہ کے بہت سے علاقوں کے ،چنیدہ افراد ہندوستان کا رخ کر رہے تھے۔ اہل کمال کے اس ہجوم میں ’’بابا نظام ‘‘ نے جلد ہی ایک محنتی ،ذہین اور علم کا شدید اشتیاق رکھنے والے طالب علم کی حیثیت سے اپنا مقام منوالیا اپنی ذہانت بر جستہ گوئی اور استدلال و طریق گفتگو کی وجہ سے نظام الدین بحاث اور نظام الدین محفل شکن کے القابات سے مشہور ہو گئے۔ انہوں نے اپنے عہد کے تمام علوم سے شناسائی حاصل کی مقامات حریری عربی ادب کی ایک مشکل اور ادق کتاب ہے ۔ اس کے چالیس ابواب زبانی یاد کر لیے۔ مولانا شمس الملک ، مولانا کمال الدین زاہد اور مولانا امین الدین محدث جیسے باکمال اساتذہ سے علم حاصل کیا، خواجہ شمس الملک تو اپنے شاگرد کا اس درجہ احترام کرتے کہ انھیں اپنے برابر میں بٹھاتے۔مولانا کمال الدین زاہد حدیث کے زبردست عالم تھے انہوں نے علم حدیث ، نامور محدث مولانا رفیع الدین صغانی صاحب ’’ مشارق الانوار ‘‘ کے شاگرد مولانا برہام الدین محمود اسعد بلخی سے حاصل کیا تھا۔ مزاج میں زہد ، تقویٰ اور قناعت پاکیز گی کوٹ کوٹ کر بھرے ہو ئے تھے۔ جب بادشاء غیاث الدین بلین نے ان کا شہرہ سنا تو انہیں دربار میں طلب کیا ۔ اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ہماری بمازوں کی امامت کروائیں ۔ مولانا کے سواء اور ہے کیا، کیابادشاء اسے بھی ہم سے چھین لینا چاہتا ہے’’ بلین یہ سن کر چپ ہو گیا اور دوبارہ اصرار نہیں کیا۔’الانوار‘‘ بخاری اور مسلم کا ایک خو بصورت انتخاب ہے۔ خواجہ نظام نے آپ سے اس کتاب کا نہ صرف یہ کہ درس لیا بلکہ پوری کتا ب کو حرفاََ حرفََا حفظ بھی کر لیا۔دلی میں خواجہ نظام الدین کو حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کا پڑو س میسر آیا۔ آپ حضرت با با فرید الدین گنج شکر کے چھو ٹے بھائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے اتنا پڑھ لیا کہیں قاضی لگ جاؤ ں میں نے حضرت متوکل سے دعا کیلئے عرض کیا تو انھوں نے مسکرا کر کہا ، قاضی مشو چیزے دیگر مشو، قاضٰ نہ بنو کچھ اور بنو، خواجہ نظام الدین بچپن میں بابا فرید الدین کا ذکر سنتے تو اپنے دل میں ان کیلئے بڑی محبت محسوس کرتے ۔ شیخ نجیب نے اس اشتیا ق کو بہت بڑھا دیا اور وہ بابا صا حب کی ملاقات کیلئے پاکپتن روانہ ہو گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں