خواجہ سرا،معاشرہ کی تنگ نظری کا شکار

ساجد محمود/خواجہ فارسی زبان کا لفظ ہے اسکی جمع خواجگان ہے جسکے معانی سردار یا آقا کے ہیں عام فہم زبان میں خواجہ سرا کھسرے,ٹرانسجینڈر یا ہیجڑا سے ماخوذ کیا جاتا ہے یہ جنس بھی اللہ تعالی کی پیدا کردہ انسانی مخلوق میں سے ایک ہے جو جسمانی اعتبار سے عام انسانوں سے مختلف ہے ادارہ شماریات کے سروے کے مطابق ملک میں اس وقت خواجہ سراں کی تعداد ہزاروں میں ہے تاہم جینڈر انٹریکٹو الانس جیا کی بندیا رانا کے مطابق انکی تعداد ایک لاکھ سے زاہد ہے کھسرا یعنی مخنث پیدا ہونا کوی جرم نہیں تاہم اسکے باوجود انہیں پیداش کے بعد والدین انکی جنس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم جب راز افشا ہوجاتا ہے سب سے پہلے اپنے ہی والدین کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارا معاشرہ بھی انکو خواجہ سرا کے روپ میں انہیں بطور معاشرے کا ایک فرد قبول کرنے میں تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہے خاندان سے لاتعلقی اور پرورش و کفالت میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی بنا پر خواجہ سراں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر بھیک مانگتے شادی بیاہ کی محفلوں میں ناچتے گاتے نظر آتی ہے جبکہ ہمارا جدید معاشرہ خواجہ سراں کیساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرتا ہے حال ہی میں ایک خواجہ سرا سے مختصر نشست میں اسکی حالات زندگی کے متعلق دریافت کرنے کا موقعہ ملا اس نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ عرصہ دراز سے کلرسیداں میں رہائش پزیر ہیں انہوں نے اپنی آب بیتی بتاتے ہوئے شکایت کی کہ جسمانی تبدیلیاں ظاہر ہونے پر پہلے پہل ہمیں اپنے گھر سے ہی والدین کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب گھر والوں کا تشدد حد سے بڑھ کر ناقابل برداشت ہوجاتا ہے تو پھر گھر سے بھاگنا پڑتا ہے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے گرو کے آستانے پر پہنچ جاتے ہیں اگر گرو اچھا ہو تو پھر زندگی کے بقیہ سانس لینے میں کچھ آسانی پیدا ہوتی ہے صبح سویرے بن سنور کر بھیک مانگنے نکل جاتے ہیں ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں کوئی تو ترس کھا کر پیسے دیتے ہیں اور بعض سے تمسخر اڑانے اور انکی طرف سے دھتکارے جانے کے تکلیف دہ عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے سارا دن دنیا کی خاک چھان کر طعنے اور مذاق برداشت کرتے جب شام کو گرو کے ڈھیرے پر لوٹتے ہیں تو جو کماتے ہیں کچھ گرو کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں تو کچھ اپنا جیب خرچ رکھ لیتے ہیں گرو ہی ہمارا مائی باپ ہوتا ہے رہائش تن بدن کو ڈھاپنے کیلئے کپڑا فراہم کرنا بھی گرو کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جب کبھی بیمار ہو جائیں تو دوا داروں کے اخراجات بھی گرو ہی برداشت کرتا ہے انہوں نے میرے اس سوال پر کہ بطور خواجہ سرا کے آپ زندگی کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں جواب میں انہوں نے لمبی سانس لے کر آہ بھری اور اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ رب کسی کو خواجہ سرا پیدا نہ کرے اس دوران انکے چہرے پر غم کے بادل چھا گئے تھے تاہم وہ اپنے لبوں سے مسکراہٹ کا تاثر دینے کی ناکام کوشش کررہے تھے انکی داستان غم بہت طویل تھی مگر وقت کی قید کے پیش نظر دوبارہ اپنی داستان غم سنانے کا وعدہ کرکے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔اس بات میں کوئی دلیل درکار نہیں کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے میں احساس محرومی کا شکار طبقہ ہے بلوغت میں قدم رکھتے ہی انکے ساتھ امتیازی سلوک معاشرے کا تحضیک آمیز رویہ جنسی درندگی اور نفرت انگیز نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے جو کسی طور پر بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا پارلیمنٹ میں خواجہ سراؤں کیلئے قانون سازی تعلیمی اداروں میں مختص مخصوص نشستیں یا نادرا میں شناختی کالم کا اضافہ کرنے سے انکے مسائل حل نہیں ہوجاتے بلکہ کم عمری میں ہی مخنث کیلئے حکومتی سرپرستی میں شیلٹر ہوم قائم کیجائیں جہاں انکی تعلیم وتربیت کا مکمل بندوبست کیا جائے بالخصوص علما کو اسلامی تعلیمات اور دلائل کی روشنی میں انکو حقوق دلانے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے خواجہ سراؤں کو بھیک مانگنے ناچ گانے کی محفلوں کو رنگینی بخشنے اور جنسی استحصال سے بچانے کیلیے بے روزگار قرضہ اسکیم کے تحت باعزت روزگار کے حصول کیلیے آسان اقساط پر قرضے فراہم کیے جائیں حکومتی سرپرستی میں ٹیکنیکل اداروں میں خواجہ سراؤں کو فنی تربیت فراہم کیجائے تاکہ وہ جب تک بعقید حیات رہیں اپنی رہائش لباس اور روزی روٹی کا مناسب بندوبست کر سکیں صنفی اعتبار سے قطع نظر مرد وعورت ہمارے معاشرتی نظام کا اٹوٹ انگ ہیں اسی طرح خواجہ سرا بھی اپنے مساویانہ حقوق کی طلب میں حق بجانب ہیں بظاہر ہمارا شمار تہذیب یافتہ معاشرے کے افراد میں گردانا جاتا ہے تاہم ہم اس وقت تک اپنے آپکو مہذب معاشرے کے فرد کہلانے کے حقدار نہیں جب تک صنفی اعتبار سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے معاملے میں پائی جانے والی تفریق کے فرق کو ختم کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں