ہسپتال میں خواتین کی ویڈیوز بنانے کا اسکینڈل،کیا یہ معاشرہ معزز کہلانے لائق ہے؟

اسلامی معاشرہ اسلامی اقدار اور اخلاق سے جنم لیتا ہے مسلمان اللہ کے احکام کو سمجھ لے اور غور وفکر کرتے ہوئےاگر ہر بندہ پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرلے تو معاشرہ ہر برائی سے پاک ہوسکتا ہے اسلام کا سورج طلوع ہوئے چودہ سو برس ہوچکے لیکن برائیوں نے آج بھی ہمارے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے

کیونکہ ہم نے خود کو ایمان کی روشنی سے دور کرلیا ہے۔اسلام تو ایک تہذہب کا نام ہے جو ایک معزز معاشرے کو جنم دیتا ہے کیا ہمارا معاشرہ معزز کہا جاسکتا جہاں ہر روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ روح لرز جاتی ہے لیل ونہار میں ہمارے شب وروز سیل رواں کی طرح گزرتے جارہے ہیں

انہی گزرتے لمحوں میں ڈھیروں قصے اور ان گنت واقعات جنم لیتے ہیں اور ہم ان کے کردار بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ دور حاضر میں انسان ہوس میں اندھا ہوکر جانوروں سے زیادہ بدتر ہوچکا ہے ایک واقعہ میں گوجرخان تحصیل اسپتال میں ایک جنسی مریض کے بھیانک کردارنے انسانیت کو شرمندہ کردیا۔

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

میڈیا رپورٹ میں گوجرخان تحصیل اسپتال کے لیڈیز وارڈ میں چھٹ کے بغیر ایک واش روم استعمال کرنے والی خواتین کی وڈیو یا تصاویر بنانے کا انکشاف کیا گیا جس میں پنجاب پولیس کے ایک جنسی بھیڑیے عقیل عباسی کو موقع پر پکڑا گیا جو واش روم کی چھت نہ ہونے کا کا فائدہ اٹھا کر دیوار کے اوپر سے خواتین کی وڈیو یا تصاویر بناتا تھا

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس جنسی مریض کے موبائل میں تین سو سے زیادہ تصاویر موجود ہیں پنجاب پولیس کے اس ذہنی جنسی مریض ملازم کی گھناؤنی حرکت تو اپنی جگہ قابل مذمت ہے لیکن اس سے زیادہ قابل مذمت اسپتال انتظامیہ کا کردار ہے کہ اس کی نااہلی کے باعث ایک جنسی درندہ دیدہ دلیری سے ہماری بہو بیٹیوں کی تصاویر بناتا رہا ۔

سوال یہ بھی ہے کہ لیڈیز واڑ کا واش روم بغیر چھت کیوں ہے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایم۔ایس اس واش روم کی چھت نہ ہونے سے بے خبر تھے ۔اس کا جواب یقیناَ نفی میں ہونا چاہیے کیونکہ انتظامی افسر ہونے کے ناطے انہیں اسپتال کے چپے چپے سے واقف ہونا چاہیے اور اگر وہ اس سے بے خبر تھے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ اس سیٹ کے اہل نہیں ۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسپتال انتظامیہ نے اس واش روم پر چھت نہ ہونے کا معاملہ ادارے کے سامنے پیش کیا کیا اس بارے ڈسٹرکٹ افسران سے کوئی خط وکتابت کی گئی۔ ویسے تو اسپتال کے اپنی فنڈز بھی موجود ہوتے ہیں جس سے اس واش روم کی چھت کا مسلہ حل کیا جاسکتا تھا ۔لیکن ایم ایس کی روایتی نااہلی اور کاہلی کے باعث یہ ممکن نہ ہوا ۔

تین سو وڈیوز یا تصاویر ایک دو روز میں نہیں بنی ہوں گی یقیناً یہ مردود شخص ایک وقت سے یہ گھناؤنا کام کررہا ہے میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اس کے ملازم ہونے کی شناخت کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ شخص تھانہ صادق آباد میں ریپ کیس میں بھی نامزد ہے یعنی یہ ایک عادی مجرم ہے پنجاب پولیس کے ایک اور ملازم حارث بھی انکوئری کے بعد لڑکی کو حراساں کرنے اور زیادتی کی کوشش ثابت ہونے پر گرفتار کیا گیا ہے

۔دونوں واقعات سے ثابت ہوا کہ پنجاب پولیس میں بھرتیوں کا نظام اس قابل نہیں جس کے تحت بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی ذہنی کیفیت کے ساتھ ساتھ ان کے بیک گراؤنڈ اور ماضی کے کردار کو بھی پرکھا جائے ۔

سفارش کلچر نے ادارے میں کرمنل مائنڈ افراد کو بھرتی کرکے انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے فعل میں ملوث ہونے کے باوجود پیٹی بھائیوں کو سپورٹ فراہم کی جاتی ہے اگر اس شخص پر پہلے ہی ریپ کا مقدمہ موجود ہے توکیا وہ کیس کے فیصلے تک وہ معطل ہوا ہے ؟ ویسے تو پاکستان کا ہرادارہ عوام دشمن ہے لیکن محکمہ پولیس کرپشن ظلم وزیادتی اور ایسے گھناؤنے کاموں میں سب پر سبقت رکھتا ہے ۔

گوجرخان کی صحافی برادری نے اس واقعہ کو بہت بہتر انداز میں رپورٹ کیا جو لائق تحسین ہے ۔لیکن مقدمہ درج ہونے کے بعد قلمکاروں کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے کہ وہ اس واقعہ کو مردہ نہ ہونے دیں اس کیس پر نظر رکھیں عوام کو اپ ڈیٹ دیتے رہیں کیونکہ اگر صحافی برادری نے سستی دیکھائی تو پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے ادارہ اس کیس کو کمزور کردے گا جو ان خواتین کے ساتھ ظلم ہوگا جن کی تصاویر یہ جنسی درندہ بناتا رہا ہے۔

ان دونوں نفس کے غلاموں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے ان کے کیسوں کو فالو کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ ادارہ مٹی پاؤ والے مقولے کے تحت ان کو تحفظ فراہم کرنے کی۔کوشش ضرور کرئے گا۔

اطلاع ہے کہ پولیس کے بنائے کمزور کیس کے باعث اس درندے کی ضمانت ہوچکی اور یقینا کل کلاں وہ اس کیس سے باعزت بری بھی ہو جائے گا اور ایک بار پھر اپنے کالے کرتوت دھرئے گا کیونکہ جب کسی ملزم کو سزا کو سزا نہیں ملتی تو اس کا حوصلہ بلند ہوتا ہے کاش پولیس کے اعلیٰ حکام اس مسلے پر سنجیدگی اختیار کرتے ۔
طالب حسین آرائیں

اپنا تبصرہ بھیجیں