خطہ پوٹھوہار میں گوجر خان کا مقام

مبین مرزا
وطن عزیز پاکستان کے جغرافیائی مطالعے میں پہاڑوں ، میدانوں، صحراؤں کے ساتھ ساتھ سطوح مرتفع کا ذکر بھی ہے ۔ پاکستان میں مرتفائی سطح کے لحاظ سے دو علاقے پائے جاتے ہیں۔ ایک سطح مرتفع پوٹھوہار اور دوسری سطح مرتفع بلوچستان، لیکن اپنے خواص ، اپنے موسموں ، اپنے باشندوں، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے ان دونوں علاقوں میں بہت سا فرق ہے،بلوچستان کی سطح مرتفع خشک بے آب و گیاہ اور ویرانی کا نمونہ ہے ، جبکہ پوٹھوہار کی سطح مرتفع سر سبز، دریاؤں ،ندی نالوں، جھیلوں اورقدرتی چشموں سے مزین ہے۔
کسی بھی جگہ کے موسمی اور جغرافیائی حالات وہاں کے باشندوں کے طرز زندگی اور تہذیب و ثقافت پر کافی گہرے اور انمٹ اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ اسی تناظر کے ساتھ اگر سر زمین پوٹھوہار پر نظر دوڑائیں تو کہیں خوبصورت سرسبز ٹیلے ، اور کہیں گہری کھائیاں ، کہیں سیدھے میدان تو کہیں خوبصورت وادیاں، اور ان کے درمیان بہتے پانی کے دریا نما ندیاں ہمیں نظر آئیں گی ۔ یہ تو بیرونی نظارے ہیں لیکن اگر اس سرزمین کا سینہ چیر کر دیکھا جائے تو قدرت کے بے شمار خزانے اس کے اندر دفن ہیں، قدرتی گیس، معدنی تیل یہاں آہدی،مسہ کسوال کے علاوہ اب کوٹ دھمیک سے بھی نکالا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوئلہ اور نمک کے وسیع ذخائر اسی خطہ پوٹھوہار کے دامن میں موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں پائی جانے والے تمام معدنیات کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کے زرخیز دامن میں موجود ہے۔
جس طرح یہ خطہ (پوٹھوہار) اپنی سطح کے لحاظ سے گوناں گوں خصوصیات کا حامل ہے اسی طرح اس خطے کے بسنے والے لوگ بھی گونا گوں خصوصیات کے حامل ہیں۔جس طرح ہر علاقے کی کسی مرکزی جگہ کو اس علاقے کا دل کہتے ہیں ،جیسے پنجاب کا دل لاہور شہر کو کہا جاتا ہے اسی طرح خطہ پوٹھوہار جس میں ضلع اٹک ، ضلع راولپنڈی ، ضلع جہلم اور ضلع چکوال شامل ہیں اس کا دل بھی ایک چھوٹے سے مگر خوبصو رت اور بے شمار حوالوں سے خصوصی اہمیت کے حامل ’’گوجر خان ‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ گوجرخان کو بے شمار حوالوں سے پاکستان بھر میں خصوصی امتیازات حاصل ہیں۔ جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ۔
پاکستان کا قیام۱۹۴۷ء کو ہوا ۔ ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے محاذ پر دشمن کے مقابل بے مثال جرأت و بہادری کا قابل تقلید نمونہ پیش کرنے والے پاک فوج کے پہلے آفیسر ’’ کیپٹن سرور شہید‘‘ جن کو دفاع وطن پر بے مثل بہادری کے ساتھ جان کا نذرانہ پیش کرنے پر ملک کیسب سے بڑے فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا گیا۔
’’کیپٹن سرور شہید‘‘ کا تعلق اسی سرزمین گوجرخان کے ایک گاؤں ’’سنگھوری‘‘ سے تھا ۔
پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز صرف پاک فوج کے آفیسر زکی بے مثل بہادری اور خدمات کے اعتراف کے لئے مخصوص تھا۔ کسی سپاہی کوسب سے بڑے اس اعزاز سے نوازنا پاک فوج کی روایت نہیں تھی، مگر اسی دھرتی کے ایک اور بے مثل نڈر وبے باک سپوت ’’سوار محمد حسین شہید‘‘ نامی ایک سپاہی نے۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں ایک ڈرائیور ہوتے ہوئے بھی جرأت و بہادری کی ایسی انمٹ داستان رقم کی پاک فوج کو اپنی روایت توڑتے ہوئے تاریخ پاکستان میں پہلی بار کسی فوجی سپاہی کو اسکی بہادری کے ساتھ جرأتمندانہ شہادت پر ’’نشان حیدر‘‘ جیسے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے نواز کر خراج تحسین پیش کرنا پڑا۔ اس عظیم سپوت کا تعلق تحصیل گوجر خان کی ڈھوک پیر بخش سے تھا۔ اس لحاظ سے گوجرخان پاکستان بھر کی واحد تحصیل ہے کہ جس کے ماتھے کا جھومر دو نشان حیدر ہیں ، جو اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ دھرتی باجرأت و باغیرت مکینوں کا مسکن ہے۔
زندگی کے دیگر شعبہ جات پر نظر دوڑائیں تو علم و ادب ہو یا فن و ثقافت، عسکری قیادت ہو یا کہ سیاسی قیادت، ہرشعبہ زندگی میں اس تحصیل کے لوگ اپنی خداد صلاحیتوں کا لوہا منواتے نظر آتے ہیں ،زیادہ دور کی بات نہیں صرف چند برس قبل ہی پاکستان کی تمام بری،بحری اور فضائی افواج کی کمان اسی دھرتی کے ہونہار سپوت ’’ جنرل اشفاق پرویز کیانی‘‘ کے ہاتھوں میں رہی ہے ، جن کا تعلق گوجرخان کے گاؤں منگھوٹ سے تھا۔ ماضی قریب میں صوبائی حکومت بھی ’’چوہدری محمد ریاض‘‘ کو صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود بنا کر اس دھرتی کی صلاحتیوں کو خراج تحسین پیش کر چکی ہے ۔چوہدری محمد ریاض کا تعلق راقم کے گاؤں جنڈنجار سے ہے۔ ان کے بعد ایک اورقابل فخر سپوت’’راجہ پرویز اشرف‘‘ نہ صرف ’’وفاقی وزیر برق و آب‘‘ رہے ہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے انتظامی عہدے ’’ وزیر اعظم پاکستان‘‘ پر متمکن رہ چکے ہیں اور مختصر مدت میں گوجرخان کی تعمیر ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے، ان کا تعلق گوجرخان کے گاؤں کونتریلہ سے ہے۔
کرکٹ کے میدان ’’ محمد عامر‘‘ کو تیز ترین بالر کا اعزاز حاصل ، چمپئین ٹرافی کے فائنل میچ میں انڈین نامور بلے باز ہمارے اس فخر گوجرخان کے دھواں دار بالنگ کے سامنے نہ ٹھہر سکے اس عظیم کامیابی میں پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ ’’ محمد عامر‘‘ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ محمد عامر بلا شبہ نہ صرف خطہ پوٹھوہار بلکہ اہلیان گوجرخان کا عظیم فخر ہیں۔ محمد عامر کا تعلق گوجرخان کے نواحی گاؤں ’’ چنگا بنگیال ‘‘سے ہے۔
عدلیہ کے میدان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے گیارویں چیف جسٹس ’’محمد افضل ظلہ‘‘ اور جسٹس ’’ عزیز بھٹی‘‘کا تعلق بھی اسی دھرتی گوجرخان سے تھا ۔ معاشی میدان میں طارق شریف بھٹی بین الااقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ علم و ادب کے میدان میں بھی یہ دھرتی نہایت زرخیز ہے، علم و ادب کے حوالے سے مندرجہ ذیل مشہور و معروف ہستیوں کا تعلق بھی ہماری اسی سرزمین سے ہے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر جو عصر حاضر میں تصوف اور جدید علم کو اسلام کی روشنی میں سب دنیا تک پہنچا رہے ہیں پوری دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ، بین الااقوامی یونیورسٹیاں بذریعہ سٹیلائٹ ان کے لیکچرز اپنے طلبہ تک پہنچا رہی ہیں۔ بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں ۔
لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ حکایت کے مالک و مدیر’’ عنایت اللہ مرحوم‘‘ تھے ،ماہنامہ حکایت کو کھل کھلا کر نظریہ پاکستان کا پرچار کرنے والے ڈائجسٹ کا درجہ حاصل ہے ۔ اسی ڈائجسٹ نے پہلی بار ’’صابر حسین راجپوت ‘‘اور’’ احمد یار خان‘‘ کی شکار اور سراغرسانی کی کہانیاں شائع کر کے ’’خطہ پوٹھوہار‘‘ کو پاکستان بھر میں متعارف کروایا۔
عنایت اللہ مرحوم ’’داستان ایمان فروشوں کی‘‘،’’ میں کسی کی بیٹی نہیں‘‘،’’ بی آر بی بہتی رہے گی‘‘،’’ بدر سے باٹا پور تک‘‘اور’’ فتح گڑھ سے فرار ‘‘جیسے تاریخی و معاشرتی ناولوں کے خالق بھی ہیں۔ عنایت اللہ مرحوم گوجر خان کے رہائشی تھے، جبکہ ان کا آبائی گاؤں ’’ کنیٹ خلیل‘‘ تھا۔
ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے حوالے سے سید اختر امام رضوی ایک بہت معتبر نام ہے، جنہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے طاقتور میڈیا کے ذریعے پوٹھوہاری زبان و کلچر کو نہ صرف نکھار عطا کیا بلکہ پوری دنیا میں متعارف کرایا، اختر امام گوجرخان شہر کے رہائشی تھے جبکہ ان کا آبائی گاؤں ’’کنیال بجرانہ‘‘ تھا۔
ریڈیو پاکستان سے پوٹھوہاری پروگراموں کا آغاز کرنے والے طارق مسعود اور بعد میں ان کے بھائی سید اختر علی جعفری جو راجہ جی کے نام سے مشہور تھے نے ’’ جمہور نی واز‘‘ سے کیا اختر جعفری کو بابائے پوٹھوہار کے خطاب سے بھی نوازا گیا ، ان دونوں بھائیوں کا تعلق بھڈانہ سے تھا جبکہ پاکستان ٹیلی ویژن کی مشہور کمپےئر ’’ قراۃ العین علی، سید توثیق حیدر اور سند س جمیل کا تعلق بھی گوجرخان سے ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور نیوز کاسٹر’’ عشرت فاطمہ‘‘ کا تعلق گوجرخان کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’ ریپہ‘‘ سے تھا۔
اردو نعت گوئی میں عابد سعید عابد کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ان کے فن نعت پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے، اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر نثار قریشی’ مرحوم‘ کا تعلق بھی اسی دھرتی سے ہے۔
راشد حمید روزنامہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن کے بہت سالوں تک انچارج رہے ہیں، ان کا تعلق مسہ کسوال سے ہے۔ روزنامہ جنگ کے بہت سنےئر صحافی ، کالم نگار اور پاکستان ٹیلی ویژن پر فکری و مذہبی پروگراموں کے میزبان ’’ خورشید ندیم‘‘ کا تعلق بھی اسی زرخیز دھرتی سے ہے۔ نوجوان شاعر و کمپےئر ’’ آل عمران‘‘ پورے ملک میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مشہور زمانہ منقبت’’ میں تو پنج تن کا غلام ہوں‘‘ کے خالق محمد یوسف قمر اور بشارت محمود مرزا بھی اہل ادب اور دانشور طبقہ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پنجابی زبان و ادب میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کا پنجابی میں منظوم کلام کے حوالے سے’’ محراب خاور‘‘ کا نام و کام پنجابی زبان و ادب کا ایک گراں مایہ اثاثہ ہے بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، فلم انڈسٹری میں گوجر خان کے جہانگیر مغل کا نام بھی ایک سند ہی حیثیت رکھتا تھا۔
تصوف کے میدان میں، بابا فضل شاہ کلیامی، پیر محمد شاہ، سائیں کانواں والے اور سخی معظم شاہ قلندری جیسے بزرگان کے مزارات مقدسہ ہزاروں لوگوں کیلئے مرجع خلائق ہیں۔ مشہور مزاح نگار’’ سید ضمیر جعفری مرحوم‘‘ نے جن کا تعلق جہلم سے تھا ،نے گوجر خان کی مٹی میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی اور وہ اپنی وصیت کے مطابق اپنے روحانی پیر و مرشد ’’ سید محمد شاہ‘‘ کھنیارہ شریف کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔
خطہ پوٹھوہار کے لوگوں کے مادر ی زبان پوٹھوہاری ہے۔ اگرچہ پوٹھوہاری زبان و ادب کے فروغ میں ’’اٹک ، جہلم، چکوال، اسلدم آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے اہل قلم نے اردو ادب کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان میں لکھ کر اس کا حق ادا کرنے کی بھر پور کوششیں کی ہیں، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پوٹھوہاری زبان و ادب کے فروغ میں سب سے زیادہ حصہ گوجرخان کے اہل قلم نے ڈالا ہے۔ ادب کی کون سی صنف ایسی ہے کہ جس میں یہاں کے اہل قلم نے پوٹھوہاری زبان میں کوئی کتاب پیش نہ کی ہو۔ مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر گذشتہ دو سال سے پوٹھوہاری زبان پر عالمی سطح کی کانفرنس کا باقاعدہ اہتمام گوجرخان کی سلیم اختر میموریل لائبریری میں کیا جا رہا ہے۔ جس میں اب تک کم و بیش بیس کتابوں کی تقریب رونمائی کی جا چکی ہے۔
پوٹھوہاری زبان میں کالم نگاری بھی کی جارہی ہے جس کا سہرا بھی گوجرخان کے دو کالم نگاروں شاہد لطیف ہاشمی اور مبین مرزا( راقم) کے سر ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں اس زرخیز مٹی نے بہت سے نامور لوگ جنم دئیے جو آج بھی ہمارے علاقہ کی مان اور پہچان ہیں۔ اس زرخیز زمین میں ابھی بھی بہت سارے پھول پودے پرورش پا رہے ہیں جو آنے والے زمانے میں اپنے رنگوں اور خوشبوؤں سے سارے عالم کو معطر کریں گے(ان شااللہ)۔

0335-5631610

اپنا تبصرہ بھیجیں