خطہ ایک‘ رویے دو/ محمد شہزاد نقشبندی

محمد شہزاد نقشبندی
سری لنکا سے ایک قافلہ بصرہ جا رہا تھا جب یہ قافلہ دیبل کی بندرگاہ کے قریب پہنچا تو میدھ قوم کے ڈاکوؤں نے اس قافلے کو لوٹ لیا عورتوں اور یتیم بچوں کو قیدی بنا لیا انہیں عورتوں میں سے ایک عورت نے گورنر عراق حجاج بن یوسف کے نام دہائی دی جب اس کی خبر حجاج کوملی تو اس نے فوری کاروائی کرنے کا ارادہ کیا اس نے دیبل کے حکمران راجہ داھر کو سامان واپس کرنے اور عورتوں کو رہا کرنے اور ڈاکووں کو پکڑ کر اسلامی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اس نے بڑا روکھا سا جواب دیا کہ ڈاکوؤں کو تلاش تو ہم کر سکتے ہیں لیکن عورتوں اور بچوں کو تم خود ہی آزاد کرواو اس جواب کے بعد حجاج بن یوسف نے ولید بن الملک سے سندھ پر حملے کی اجازت لی 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسم کو امیر لشکر بناکر روانہ کیا محمد بن قاسم نے دیبل( یعنی سندھ )پر 711 ء میں حملہ کیا اور راجہ داہر کو شکست فاش دی اور ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا وہ صرف چار سال تک اس علاقہ میں رہا اس نوعمر جوان نے اپنی رعایا کے ساتھ عدل انصاف مساوات نرمی عفودرگزر کا برتاؤ کیا جو صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا جس سے مقامی لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اس حسن سلوک نے ان کو اس نوجوان کا گرویدہ کرلیا تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ یہ نوجوان جب واپس جانے لگا تو سارے سندھ میں افسردگی چھا گئی دور تک لوگ اپنے محسن کو الوداع کرنے کے لئے پیدل چل کر گئے اعجازالحق قدسی اپنی کتاب تاریخ سندھ میں لکھتے ہیں کہ جب اس کی وفات کی خبر سندھ میں آئی تو کیرج کے لوگوں نے تو اس کے ساتھ محبت کی مثال قائم کردی اس کا مجسمہ بنا کر خراج عقیدت پیش کیا اصل بات تو یہ ہے یہ ساری عقیدت و محبت وہ لوگ جس کو پیش کر رہے ہیں وہ آپس میں باہم ہم مذہب نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں ایک فاتح اور دوسرا مفتوح ہے مفتوح فاتح کے نغمے الاپ رہا ہے 1947 میں برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوا اس تقسیم کے دوران غالبا دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی پاکستان سے بھارت جو ہندو اور سکھ مذہب کے ماننے والے گئے ان کی عبادت گاہیں آج بھی ہمارے اردگرد اپنی اصل حالت میں موجود ہیں مقامی لوگوں نے ان کو چھوا تک نہیں حالانکہ اس مذہب کا ماننے والا ایک شخص بھی اس علاقہ میں موجود نہیں اور نہ ہی کسی کا خوف دامن گیر ہے اسی طریقہ سے جو اقلیتیں پاکستان میں رہ رہی ہیں ان کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہیں کوئی ان کی عزت جان و مال کو گزند نہیں پہنچاتا وہ عزت واحترام سکون قلبی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے عبادت کر رہے ہیں صلہ رحمی کی حالیہ مثال بھی ذہن میں رکھیں جو انڈین پائلٹ کو دوسرے ہی دن آزاد کر دیا گیا یہ تصویر کا ایک رخ تھا اب ذرا دوسرا رخ ملاحظہ ہو متحدہ ہندوستان میں ،1937 میں الیکشن ہوا کانگریس نے 707 اور آل انڈیا مسلم لیگ نے 106 نشستیں حاصل کی اس وقت ہندوستان کے کل 11 صوبے تھے نتائج کے مطابق کانگریس نے سات صوبوں میں حکومت بنا لی ان صوبائی حکومتوں کے سلوک نے اقلیتوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کیونکہ تمام صوبائی قانون ساز اسمبلیوں میں کاروائی کا آغاز بندے ماترم گیت سے ہوتا جس میں ہندو مذہب کا پرچار ہے اس طرح تمام تعلیمی اداروں کا بھی آغاز بندے ماترم ھی سے ہوتا گائے کا ذبیحہ ممنوع قرار دے دیا گیا دوران نماز متعصب ہندو ڈھول باجوں کے ساتھ مسجد کے باہر آجاتے اور شور شرابہ کرتے اگر کوئی پولیس میں شکایت کرتا تو الٹا کاروائی اسی کے خلاف شروع ہو جاتی اسی طرح مندر تعلیم سکیم شروع کی گئی جس نے مسلمانوں کو اور مشکل میں ڈال دیا حکومتوں کے خاتمے پر مسلم لیگ نے 22 دسمبر 1939 کو یوم نجات منایا شدھی اور سنگھٹن تحریک کے ذریعے لوگوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرایا جانے لگا یعنی ہندو بناو تحریک شروع ہوئی تقسیم ہند کے بعد انڈیا میں اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کسی کی عزت جان مال محفوظ نہیں ان کی عبادت گاھوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ان کی موجودگی میں جیسے عظیم تاریخی بابری مسجد کی شہادت عطاء الحق قاسمی اپنی ( کتاب دلی دوراست) میں لکھتے ہیں کہ ہم بھی بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے مجھے اپنا گاؤں دیکھنے کا بڑا شوق تھا جہاں پر ہمارے آباؤاجداد رہا کرتے تھے وہاں پر وہ تاریخی مسجد بھی تھی جس میں میرے دادا حضور خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے جب میں نے وہاں قدم رکھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے جس مسجد میں اللہ کے حضور سجدے ہوا کرتے تھے آج وہ گھوڑوں کے اسطبل میں بدل چکی ہے ہر طرف گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی ہے اسی طرح1984میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر شدید فائرنگ کی گئی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا اور سینکڑوں سکھ مار دیے گیاسی طرح فسادات کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کا گجرات میں قتل عام کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر میں روزانہ غیور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں انکا کوئی پرسانِ حال نہیں حالات کی ستم ظریفی دیکھئے اترپردیش وہ صوبہ ہے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد سے زیادہ ہے لیکن حکمران جماعت بی جے پی نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور ایک بھی مسلمان رہنما کو ٹکٹ نہیں دیا اور حالیہ دنوں میں انڈین ائیر فورس کا پاکستان پر حملے کی کوشش کرنا آ پ نے تصویر کے دونوں رخ قدیم و جدید تاریخ کے آئینے میں ملاحظہ کئے دراصل یہ تصویر کے رخ نہیں بلکہ یہ دو رویے ہیں جو ایک خطہ میں رہتے ہوئے مختلف ہیں ایک کا رویہ امن و آتشی محبت بھائی چارے مساوات عفوودرگزر پر مبنی جبکہ دوسرے کا رویہ درشت انتشار جنگ و جدل باہمی شقاوت عدم برداشت انفراق پر مبنی ہے اصل سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایک ہی خطہ میں رہنے کے باوجود رویوں میں اتنا فرق کیوں ہے دراصل بات یہ ہے کہ ایک رویہ تو برصغیر کے اندر ہی پروان چڑھا اور وہ رویہ خود انسان کی اپنی تعلیمات پر مبنی ہے اور انسان کا علم ناقص ہے جب ناقص علم پر بھروسہ ہو گا نتیجہ بھی ناقص ہی ہوگا یہ ہندو رویہ ہے جبکہ اسلامی رویہ خدائی تعلیمات پر مبنی ہے اور خدا کا علم ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہے اس لئے اسلامی رویہ بھی ہر نقص و عیب سے پاک ہے انسان کی اپنی کمزوری تو ہو سکتی ہے لیکن تعلیمات میں
کمزوری ناممکن ہے اسلامی رویہ اسلامی تعلیمات محبت، عفودرگزر، اخلاق حسنہ ،امن و آتشی، برابری، صلح جوئی پر مشتمل ہے جبکہ ہندو کی مذہبی و سیاسی تاریخ باہم کوروں اور پانڈوں کی آپس میں لڑائیوں پر ھی مشتمل ہے لڑائی ہمیشہ انسان کے اندر سخت دلی، شک و شبہہ، تنگ نظری ،عدم برداشت، عدم مساوات کو جنم دیتی ہے اور دوسروں کی نفی کرتی ہے جب ایک انسان بچپن ہی سے لڑائی جھگڑے کو اپنے مذہبی شعار کے طور پر جانے پہچانے اور مانے گا تو لازما اس کے اندر دوسروں کے لئے نفرت پیدا ہو گی اور ہر وقت لڑائی جھگڑے کی ھی بات کرے گا یہ ہے رویوں میں فرق کا اصل سبب

اپنا تبصرہ بھیجیں