خطرناک ملزم ولی جان کامقدمہ کی مکمل کارروائی سے پہلے ڈی پورٹ ہونا انصاف کی نفی ہے؟

گزشتہ روز مشہور معروف قبضہ مافیاء ولی جان کی اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں اس نے نہ صرف اداروں بلکہ اسکے کالے کرتوت عوام کے سامنے لانے والے صحافیوں کو بھی دھمکیاں دی اور کہا کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘میرے خلاف جو کام کررہے ہیں میں انکے گھر گھس کر ان سے پوچھوں گا‘میرا کسی سیاسی سے کوئی تعلق ہے نہ رابطہ‘ میں اپنے بل بوتے پر بنا ہوں پاکستان ایسا ملک بن چکا جہاں بدقسمتی سے قانون تو ہے لیکن اس پر عملدرآمد زیرو ہے۔


ولی جان ایک افغان نژاد شخص ہے جسے اداروں نے دہشت گردی، قتل، اسلحہ کی نمائش اور زمین پر قبضے جیسے سنگین جرائم میں ملوث قرار دیا بالآخر ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ مگر یہ فیصلہ کئی نئے سوالات کو جنم دے رہا ہے: کیا ایک خطرناک ملزم کو مقدمے کی مکمل کارروائی سے پہلے ڈی پورٹ کرنا انصاف کی نفی ہے؟


یا پھر ریاست کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ایک حکمت عملی؟ولی جان کے خلاف مقدمات کی طویل فہرست کسی بھی عام ملزم سے کہیں زیادہ بھیانک تھی۔ اڈیالہ جیل میں قید رہنے کے دوران اس پر اقدام قتل، ہوائی فائرنگ، طاقت کے ذریعے زمینوں پر قبضہ، اور سوشل میڈیا پر خطرناک مواد پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کے گھر سے جدید اسلحہ، رائفلز، سینکڑوں گولیاں اور میگزینز بھی برآمد ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 45 افراد بشمول خواتین و بچے، اس کے ٹھکانے سے گرفتار ہوئے اور انہیں غیر قانونی رہائش کی بنیاد پر افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔


یہ بات قابلِ غور ہے کہ ولی جان کی افغان شہریت اور پاکستان میں غیر قانونی قیام بھی اس کی گرفتاری اور ڈی پورٹیشن کا بڑا جواز بنے۔ عدالت نے پہلے تو اسے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیجااور بعد ازاں ریاستی حکام کی درخواست پر ڈی پورٹیشن کا حکم جاری کر دیاگزشتہ دن والی ویڈیو اسی ردعمل کا حصہ تھی اب یہ معاملہ دو پہلوؤں کا حامل ہے: ایک طرف ریاست کی طاقتور کارروائی نظر آتی ہے، جس میں قانون شکن عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔


دوسری جانب، اگر واقعی ولی جان جیسے خطرناک فرد کو بغیر مکمل عدالتی کارروائی کے بغیر ملک بدرکیا گیاتو یہ انصاف کے نظام پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
سوال بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر وہ اتنے سنگین جرائم میں ملوث تھا، تو کیا ڈی پورٹیشن قانونی احتساب سے بچ نکلنے کا راستہ تو نہیں بن گئی؟ یا پھر یہ فیصلہ ریاست کی مجبوری تھا کہ غیر ملکی ہونے کی بنیاد پر اسے جیل میں رکھنے سے بہتر تھا کہ اسے واپس بھیج دیا جائے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف حالیہ مہینوں میں تیز رفتاری سے کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن کیا صرف شہریت کی بنیاد پر کسی ملزم کو سزا سے پہلے ہی ملک بدر کرنا انصاف کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ولی جان کا کیس ہمارے عدالتی نظام، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی، اور غیر ملکیوں سے متعلق پالیسی پر ایک اہم آئینہ ہے


یہ ایک علامتی کارروائی تھی یا حقیقی انصاف کی عملداری؟ یہ فیصلہ وقت کرے گالیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ریاست نے اپنی قانونی خودمختاری کیوں استعمال نہ کی؟ کیا یہ فیصلہ کسی پسِ پردہ معاہدے یا سفارتی مصلحت کے تحت کیا گیا؟ اگر ریاستی ادارے کسی ایسے فرد کو ٹرائل کے بغیر واپس بھیج دیں جو پاکستان میں انسانی جانوں کے ضیاع میں ملوث رہا ہو، تو اس سے مجرموں کو تحفظ ملنے کا تاثر شدت سے پیدا ہوتا ہے دہشتگردی جیسے جرائم کے لیے zero tolerance پالیسی کی بارہا بات کی جاتی ہے،


مگر عملی اقدامات اکثر اس دعوے کے برعکس ہوتے ہیں ایسے اقدامات عوام کے عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔ اگر شہریوں کو یہ احساس ہو کہ سنگین مجرم محض اس لیے بچ نکلتے ہیں کہ وہ غیر ملکی ہیں یا کسی طاقتور کی پشت پناہی رکھتے ہیں، تو قانون کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں