خدا سے وعدہ خلافی /محمد حسین

اسلامہ جمہوریہ پاکستان 14اگست 1947کو بڑی آب و تاب کے ساتھ معرض وجود میں لایا گیا بر صغیر ہند کی آزادی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے مذہب کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ دنیا کو عجیب سا لگا جس پر تمام دنیا کو باور کرایا گیا کہ مسلمانوں کا مذہب

نظام حیات کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے آفاقی ہونے کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی طرح محض رسومات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس کا دائرہ اطلاق اتنا وسیع ہے کہ بلا تفریق رنگ و نسل ،مذہب اور علاقہ تمام انسانیت کے لئے یکساں خیر خواہی اور اور فلاح کا داعی ہونے میں یکتا ہے یہ واحد نظریہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے علاوہ ملک کے تمام شعبہ ہائے مملکت کے لئے ایک مستقل اور مکمل دستور العمل کا حامل ہونے کی وجہ سے ریاست کی تشکیل میں کسی دوسرے نظریے کی شراکت قبول ہی نہیں کر سکتا چنانچہ خالق کائنات نے بھی اپنی مخلوق میں سے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیا جو زمین پر اس کے نازل کردہ

اس کے دین کی نمائندہ ہے اور باقی تمام مخلوق کو باہم مل کر ایک قوم قرار دیا یعنی ساری مخلوق دو قوموں پر منقسم ہے لہٰذا اہل زمین کے دوسرے نظریات جو انسانی انفرادیت تک محدود ہونے کی وجہ سے اجتماعی امور پر باہم اشتراک کر سکتے ہیں اور ان کا مستقل مزاج بھی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن اسلامی نظریہ وقت کے ساتھ نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی دوسرے نظریے کا جوڑ ممکن ہے چنانچہ اس مضبوط موقف کی وجہ سے دنیا اس تقسیم پر قائل ہونے پر مجبور ہو گئی اور پاکستان وجود میں آگیا چنانچہ یہ دو قومی نظریہ جسے تمام دنیا سے منوا کر اسے مطلوبہ غالب حیثیت میں عملی شکل دینے کے لئے ساری دنیا میں صرف پاکستان کو موقع نصیب ہوا یعنی اتنا بڑا اعزاز اس امر کا متقاضی تھا

کہ اس نعمت کے شکریہ میں اس کے تحفظ کو اولین حیثیت دی جائے اور اس سے انحراف کی تمام ممکن راہوں پر نہ صرف بند باندھ دیے جائیں بلکہ اس کے فروغ کو یقینی بنانے کے لئے اس کے نفاذ پر فوری توجہ دی جاتی تاکہ اس کی حقانیت اور برکات کا مشاہدہ تمام دنیا کو کرایا جا سکتا اس طرح دنیا میں پاکستان کا وجود اسلامی روشنی کا مینار ثابت ہو تا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جبکہ اس کے نفاذ کے لئے حالات با لکل ساز گار تھے چونکہ تحریک پاکستان میں عوام نے بھرپور حصہ لیا تھا مسالک پر مشتمل 31علمائے کرام نے متفقہ طور پر نفاذ اسلام کے لئے 22نکات کا اعلان فرمایا تھا لیکن بجائے اس کے کہ حالات کی اس سازگاری کو خوش قسمتی سمجھتے ہوئے اس کے نفاذ میں تاخیر سے اجتناب کر کے اس کے نفاذ سے جان بوجھ کر پہلو تہی کی گئی اور آج تک ایک ایسے وعدے کا ایفاء ممکن نہ ہو سکا جس کا اعلان اللہ ،عوام اور پوری دنیا کے سامنے کیا جا چکا تھا چنانچہ دو قومی نظریہ جس کا فیصلہ قرارداد مقاصد کی صورت میں طے ہو چکا تھا

اسے سرے سے ہی بھلا دیا گیا اور اللہ سے کٹ کر مغرب کی تقلید میں اخلاقی بگاڑ کی سرپرستی ہوتی رہی مسلمان اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمان ملک کی بقاء و سلامتی محض مادی ترقی پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مسلمان ملک کے مستقبل کے تحفظ کا ضامن صرف اسلامی اخلاق میں پختگی ہونا ہے چونکہ اخلاقہ تنزل کی صورت میں مادی ترقی بھی رک جاتی ہے چنانچہ اخلاقی پستی جو حکومت کی سرپرستی میں اس وقت تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے ملک کے مستقبل کے خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے در اصل ملک کے مستقبل کے بارے میں اس حقیقت کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک ایک عہدو پیماں کی بناء پر وجود میں آیا ہے اور یہ عہد ہم نے کسی انسان سے یا ملک سے نہیں کیا بلکہ خداکی زات پاک سے کیا ہے کہ اس ملک کے حصول کے بعد اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا یہ خدا پاک کی ہی مہربانی ہے کہ وہ اس ملک کی اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی یلغار سے حفاظت فرماتا رہا ہے تاکہ کلمہ حق کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی ناکامی اس کلمے کی حقانیت کو داغ دار نہ کر سکے

اور اسی طرح اہل ملک کی طرف سے وعدہ خلافی کی صورت میں ملک کی بقا ء اور سلامتی کی مہلت کا تعین بھی اسی نے ہی کر رکھا ہے لیکن اس حقیقت کو حکمرانوں نے ابتداء ہی سے کوئی اہمیت نہ دی اور اس کے فروغ کے داعیان کو قیدو بند کی صعوبتوں سے نوازامزید برآں علمائے کرام نے بھی سیاست کو دین سے الگ قرار دے کر سیاست کے میدان کو بے دین عناصر کے لئے خالی چھوڑ دیا لہٰذا ملک کی اب جو صورتحال بن چکی ہے وہ اس اندیشہ کو تقویت دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تحفظ اٹھ چکا ہے جس میں ہماری آزادی غیروں کے ہاں گروی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارے تمام قومی فیصلے دوسروں کی مرضی پر ہوتے ہیں

ملک کی بقاء کے لئے اب ان ممالک کے سایہ کو ضروری سمجھا جا رہا ہے جو اس ملک کے وجود کے ہی دشمن ہیں اللہ تعالیٰ کی غلامی سے انکار پر ہم پر بہت سی غلامیاں مسلط ہو چکی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں فوری طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جائے ،سودی نظام کو جڑ سے اکھاڑا جائے ،فحاشی اور عریانی کو ختم کیا جائے ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اگر مقررہ اجل کا وقت آگیا تو پھر کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں