ختم نبوت

اللہ رب العزت نے اس دنیا کو دارلعمل بنایا اور انسان کو اس دنیا میں ایک مختصر وقت کے لئے بھیجا پھر اس کی رہنمائی اور تربیت کے لئے اپنے مقرب و منتخب بندوں حضرات انبیاء کرام کا سلسلہ شروع فرمایا‘جن کی تربیت بھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی‘چنانچہ حضرت آدم پہلے انسان بھی اور پہلے پیغمبر بھی تھے۔ انبیاء کرام آتے رہے اور اللہ تعالیٰ کاپیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہے‘ کوئی نبی کسی بستی کے لیے مبعوث کیا گیا تو کوئی کسی قبیلے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر قوم کی طرف ڈرانے والا بھیجا گیا۔

چنانچہ کم و بیش سوالاکھ انبیاء کرام اس دنیا میں تشریف لائے آخر میں امام الانبیاء وجہ تخلیقِ کائنات، سیدالاولین والآخرین حضرت محمدﷺ کو اللہ رب العزت نے خاتم النبیین اور رحمت العالمین بنا کربھیجا‘ آپﷺحضرت آدم سے شروع ہونے والے سلسلہ انبیاء آخری کڑی ہیں۔ اب چونکہ سلسلہ نبوت ختم فرمانا تھا اس لئے ضروری تھاکہ اللہ اپنی لاریب کتاب قرآن کریم میں صراحتاََآپﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرماتا‘چنانچہ یہ اعلان کردیا گیا خودنبی آخرالزمان نے اس عقیدہ کی اہمیت کے پیش نظراحادیث مبارکہ میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا‘چنانچہ عقیدہ ختم نبوت اس امت کا وہ بنیادی اورمنفرد شان کا حامل عقیدہ قرار پایا جس پر تمام دین کا دارومدار ہے۔’

خاتم النبیین سرورِ کائنات کو اولین وآخرین کے علوم عطاکئے گئے چنانچہ آپﷺنے ابلیس کے چیلوں کائنات کے بد بخت ترین دجالوں کی نشاندئی بھی فرما دی جو آپ ﷺ کے منصب نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کر کے اپنے ازلی بدبخت ہونے کا ثبوت دیں گے۔ آپ ﷺ نے ان جھوٹے مدعیان نبوت کو کہیں دجالوں اور کہیں کذابوں کہہ کرمخاطب فرمایا اور اپنی امت کو ان کے فتنہ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔
اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب نے آپﷺ کی حیات طیبہ میں ہی دعویٰ نبوت کیا اسود عنسی معلون کو آپﷺ کی ہدایت پر آپ ﷺ کے جانثار صحابی حضرے فیروز ویلمی نے جہنم واصل کیا اور مسیلمہ کذاب کے خلاف سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں صجابہ کرام کا پہلا اجماع ہواور یمامہ کے میدان میں بارہ سو صحابہ کرام نے مسیلمہ کزاب کے خلاف کئے گئے جہاد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کراس فتنہ کی سر کوبی کی اور اس عقیدہ کی اہمیت کو امت کے سامنے واضح کیا اور اسلامی حکومت کے سامنے ایک راہ بھی متعین فرمادی کہ جو شخص آپﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے اس کا علاج یہی ہے کہ اسلامی حکومت اس کے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کر دے۔


پوری تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جھوٹے مدعیان نبوت کے بارے میں مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ صحابہ کرام کے اسی عمل کی پروی کی انہی کذابوں دجالوں کے ناپاک سلسلہ کا ایک فرد مرزا غلام احمد قادیانی ہے جس نے اپنے انگریز آقاکے کہنے پر مسلمانوں کے دلوں سے جزبہ جہاد ختم کرنے اور نبی کریمﷺ سے امت مسلمہ کا تعلق کمزورکرنے اور مسلم امہ کو انتشار میں ڈالنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف دعوے کئے کبھی مہدی اورکبھی منہم ہونے کا دعویٰ کیا کبھی مریم بناتو کبھی عیسیٰ اور کبھی رسول ہونے کا دعویٰ کیا تو کبھی خدا ہونے کاالعیاذباللہ لیکن ان سب باطل دعویٰ کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کیا میں انگریز کا خود کاشت پودا ہوں رسول پاکﷺ کے ختم نبوت کے سلسلے میں سورت الاحزاب کی آیت نمبر چالیس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگروہ
اللہ کے رسولﷺاور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یہ قطعی اور دو ٹوک بات ہے حضور پاکﷺ کا آخری نبی اور رسول ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قیامت تک کے لئے نبی وقت ہیں’

اسی طرح سورت الجمعہ کی آیات نمبر دو اور تین میں اسی حقیقت کی طرف واضح اشارہ موجود ہے فرمایا کہ”اور ہم نے آپﷺ کو نہیں بھیجاسوائے اس کے کہ تمام انسانوں کے لئے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا“ قران مجید کے ان دونوں مقامات پر یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آپﷺ قیامت تک تمام انسانوں کے لئے اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔
ختم نبوت کے نتیجے میں یہ ضرورت لازم آتی ہے کہ اب انسان کو جو مستقل ہدایت نامہ دیا گیا ہے۔ اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے اس لئے کہ اگر یہ ناپیدہوگیایا اس میں ترمیم و تحریف ہوگئی تو انسانوں پرا تمام حجت نہیں ہوپائے گی جو نبوت و رسالت کا بنیادی مقصدہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کسی کے سپردکرنے کے بجائے خود اپنے ذمہ لے لیا اور علان فرما دیا کہ یقینا ہم نے اس یاد دہانی یعنی قران کو نازل کیا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“ اس طرح ختم نبوت کا جو لازمی تقاضا تھا وہ نہ صرف پورا کیا گیابلکہ اس کا واضح الفاظ میں اعلان بھی کر دیا گیا آخری زمانہ میں قرآن مجید کی جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے ایک آیت موضوع کے لحاظ سے اہم ہے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا کہ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کر دی اب یہ بڑی سیدھی سی بات ہے اور آسانی سے ہر ایک کی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ جب دین مکمل ہوگیا اور نعمت تمام ہوگئی تو انبیاء اور رسول بھیجنے کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ ‘

ختم نبوت کا ایک اور لازمی تقاضا بھی تھا اور وہ یہ کہ انسان کو جو لائحہ عمل دیا گیا ہے اس کا قابل عمل ہونا بھی ثابت کیا جائے ورنہ انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ نظام زندگی بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے لیکن یہ اتنااعلی وارفع ہے کہ اس پر عمل کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے چنانچہ اس ضرورت کو پورا کرناحضورپاکﷺ کی خصوصی ذمہ داری قراردی گئی اور قران کریم میں اس کا بھی اعلان کردیا گیا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کوبجھادیں حالانکہ اللہ اپنے نور کااتمام کرنے والا ہے چاہے کافر لوگ کتنی ہی کراہیت کریں وہ ہے جس نے حقیقی نظام زندگی اور ہدایت کے ساتھ اپنے رسوالﷺ کوبھجاتاکہ وہ اس کو کل نظام زندگی پرغالب کردے خواہ مشرک لوگ کتنی ہی کراہیت کریں۔

تاریح گواہ ہے کہ حضور پاکﷺاور آپ ﷺ کے خلفاء راشدین نے پورے جزیرہ نما عرب میں اس نظام کو غالب کرکے اورچلا کر دکھایا اس سے دوباتیں ثابت ہوگئیں اولاََ یہ کہ یہ نظام قابل عمل ہے ثانیایہ کہ اس دنیا میں معاشرتی امن وسکون اور آخرت میں فوزوفلاح دونوں اسی ایک نظام زندگی میں مضمر ہیں اس طرح ختم نبوت کا یہ تقاضا بھی پورا کر دیا گیا ختم نبوت کے متعلق ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ انبیاء ورسل کی تاریخ میں اور ان کی تعلیمات میں حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک کسی نبی کے متعلق نہ تو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں اور نہ ہی کسی نبی نے خود اس قسم کا کوئی دعویٰ کیا بلکہ اس کے برعکس ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی یا نبیوں کی بشارت دی ہے

تاریخ انبیاء میں یہ پہلا موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں ختم نبوت کا اعلان فرمارہا ہے اور اسی لئے رسول ﷺ خود بھی بار بار امت کو اس بات کی یاد دہانی فرمارہے تھے ختم نبوت کے سلسلہ میں بکثرت صحابہ کرام نے احادیث روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت قوی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں رسول پاک ﷺ کا آخری نبی ہونے کا ثبوت ملتاہے
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ اپنے مکان سے نکل کر ہمارے درمیان تشریف لائے اس اخلاق سے کہ گویا آپﷺ ہم سے رخصت ہورہے ہیں آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ میں محمدﷺ نبی امی ہوں اور یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کادعویٰ کرے گاحالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نہیں۔ ‘

ایک جنگ تبوک کے موقع پر حضورﷺ نے حضرت علی کو مدینہ کا گورنر مقرر فرمایا حضرت علیؑ نے عرض کیا کہ کیا مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں اس موقع پر حضورﷺ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو موسٰیؑ کے ساتھ ہارونؑ رکھتے تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓابن الخطاب ہوتے۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔