خانہ بدوشوں کی زندگی

ایسا شخص یا گروہ جسکا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو سنسار اور در بدر کی خاک چھاننے کے لئے آوارہ پھرے اسے خانہ بدوش کہتے ہیں یہ لوگ کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرتے بلکہ گھومتے پھرتے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 3سے 4 کروڑ افرادخانہ بدوش ہیں جن میں جوان‘ بچے عورتیں اور بزرگ شامل ہیں یہ لوگ جگہیں تبدیل کرتے ہوئے ریگستانوں‘ پہاڑوں صحراؤں اور میدانی علاقوں میں خیمیں لگا کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کا پیشہ اونٹ گھوڑے اور بھیڑ بکریاں پالنا ہے آج کل قارئین کی نظروں سے ایسے خانہ بدوش قافلوں کا گزر ہوا ہوگا جو بکریوں کے ریوڑ سمیت بوڑھے، بچے خچروں پر سوار جبکہ جوان پیدل سفر کرتے نظر آئے ہونگے

کچھ دن قبل ایک چھوٹا سے قافلہ کا اراضی خاص روڈ سے بھی گزر ہوا تھا اس خچروں کے قافلے میں خواتین بچے اور جوان شامل تھے دستیاب معلومات کے مطابق خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد خیبرپختونخواہ میں رہتی ہے انہیں مقامی زبان میں کوچی یا کوچیان کہا جاتا ہے کوچی پشتو یا دری زبان کے لفظ ’کوچ‘ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ہجرت کے ہیں تاہم عام فہم زبان میں مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے گروہ کو خانہ بدوش کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے جبکہ انکی بڑی تعداد افغانستان سے نقل مکانی کرکے پاکستانی حدود میں داخل ہوتی ہے انکی اکثریت کا تعلق پشین اور خان زئی قبیلہ سے ہے اور زیادہ تر پشتو زبان میں بات چیت کرتے ہیں

جن علاقوں میں برف باری یا جھاڑے کا موسم شروع ہوتا تو یہ وہ علاقہ چھوڑ کر چراگاہوں کی تلاش میں میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سردی کی شدت کم ہوتی ہے اور گرمیوں میں دوبارہ ان علاقوں میں پلٹ جاتے ہیں یہ خانہ بدوش پہاڑوں میں غار بنا کر رہتے ہیں تاہم یہ کسی خاص جگہ پر مستقل رہائش اختیار نہیں کرتے بلکہ انکی ساری عمر زندگی کے مشکل سفر میں کٹ جاتی ہے یہ سردیوں میں خطہ پوٹھوہار کے علاقے میں وارد ہوتے ہیں اور ضلع راولپنڈی کے مضافات میں پھیل جاتے ہیں تاہم انکا قیام انتہائی مختصر اور عارضی ہوتا ہے انکے قافلے میں اونٹ خچر، بھیڑ،بکریاں اور پہرہ دار کتے شامل ہوتے ہیں اس قافلے میں بچے عورتیں بوڑھے اور جوان شامل ہوتے ہیں تاہم عورتیں بچے اور بوڑھے خچروں پر سوار ہوکر سفر طے کرتے ہیں جبکہ جوان عورتیں اور مرد قافلے کے ہمراہ پیدل سفر کرتے ہیں یہ خانہ بدوش ایران اور ہندوستان تک بھی سفر کرتے ہیں،خانہ بدوشوں کا ایک بڑا گروہ دریائے گومل کے راستے ڈیرہ اسماعیل کا رخ کرتا ہے اور پھر وسطی اور جنوبی پنجاب میں پھیل جاتا ہے

،خانہ بدوشوں کا ایک اور بڑا گروہ غزنی سے ژوب کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر خانہ بدوش ہیلمند قندھار کی طرف سے بولان کے راستے سندھ ڈیرہ بگٹی اور مشرقی بلوچستان کی طرف کوچ کر جاتے ہیں یہ خانہ بدوش گھر کا سارا سامان جس میں کھانے پینے کے برتن لباس اور خیمیں شامل ہوتے ہیں یہ سامان خچروں اور اپنے کندھوں پر باندھ کر پیدل چلتے ہیں تاہم اکثر خواتین نے ہاتھوں میں چائے کی کیتلی اٹھا رکھی ہوتی ہے جسکی نچلی تہہ قہوہ بنانے کیوجہ سے کالی ہوتی ہے جبکہ انکے ساتھ بکریوں کے بڑے ریوڑ ہوتے ہیں یہ سال میں چھ سے سات ماہ ادھر ادھر مارے پھرتے ہیں تاہم انکی زیادہ تعداد خیبرپختونخواہ کے پہاڑی علاقے میں رہتی ہے،خانہ بدوشوں کا جس طرح رہن سہن الگ تھلگ ہے اسی طرح وہ کپڑے بھی عام لوگوں سے مختلف پہنتے ہیں

عورتوں کے ڈھیلے ڈھالے چمکدار روایتی لباس زیب تن کرتی ہیں جس پر چھوٹے چھوٹے شیشوں کے ٹکڑے لگے ہوتے ہیں جو دھوپ میں دور سے چمکتے نظر آتے ہیں تاہم یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ ان قافلوں میں جو نئی نویلی دلہن ہوتی ہے وہ چمکدار لباس پہنتی ہے جو قافلے میں شامل دیگر خواتین سے منفرد اور مختلف ہوتا عورتیں سر پر مخصوص ٹوپی بھی پہنتی ہیں جبکہ مردوں کا لباس بھی خاص نوعیت کا ہوتا ہے خوراک میں گوشت انکی پسندیدہ غذا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں