خانگی ناراضگی کے خاتمے میں بلدیاتی نمائندوں کا کردار

ساجد محمود/ترقی یافتہ ممالک میں بلدیاتی اداروں کے قیام کا مقصدمقامی سطح پر عوامی مسائل کی نشاندہی اور حل انکی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے جس میں دیگر نوعیت کے معاشی عوامی مسائل کے علاوہ خانگی مسائل کا تدارک بھی شامل ہوتا ہے تاہم ہمارے ملک میں بہ نسبت ترقی یافتہ ممالک کے بلدیاتی ادارے اتنے فعال اور موثر نہیں ہیں جو مقامی سطح پر معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے درست فیصلوں کے تناظر میں انکا حل تلاش کرنے میں متاثرہ فریق کی معاونت کرسکیں موجودہ دور میں ملک میں بلدیاتی اداروں کی فوری تشکیل اور انکو فعال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے موجودہ حکمران جماعت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیہی سطح پر پنچائیت کونسل کے قیام کا جو خاکہ جاری کیا ہے اگر مستقبل میں اسکی فعالیت پر من وعن قانون کے مطابق عملدرآمد ہو جائے تو بہت سے خانگی مسائل کو مقامی سطح پر نمٹانے میں کافی مدد ملے گی تاہم موجودہ حکومت اپنی نصف آئینی مدت پوری کرنے کے باوجود تاحال بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جس سے معاشرے میں معاشرتی مذہبی اور معاشی مسائل کے علاوہ خاندانی مسائل بھی بڑی سرعت سے سر اٹھا رہے ہیں جسکے باعث ان مسائل کا شکار افراد دادرسی کے لیے تھانہ اور کورٹ کچہری کا رخ کرتے ہیں تاہم اگر حکومت عنقریب بلدیاتی اداروں کے قیام پر سنجیدگی دکھائے تو نئے تشکیل پانے والے بلدیاتی نظام حکومت کے تحت ان مسائل کو حل کرنے میں بڑی پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے حالیہ دور میں بلخصوص میاں بیوی اور خاندانی جھگڑوں کے باعث طلاق کے بڑھتے ہوئے منفی رجحانات خاندانی اور گھریلو زندگی پر غالب ہوگئے ہیں جس سے نہ صرف معاشرے کی اخلاقی قدروں اور خاندانی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں بھی عروج پر ہیں ہمارا دیہی معاشرہ ایک مضبوط خاندانی روایات اسلامی اصولوں اور قول قرار کو نبھانے میں اچھی شہرت کا حامل رہا ہے تاہم موجودہ نفسا نفسی کے دور اور دولت کی ریل پیل نے خونی اور خاندانی رشتوں کے مابین نفرت کی دراڑ ڈال دی ہے رنجشوں کے طول پکڑنے سے طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہمارے معاشرتی نظام کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے گو شادی کے بندھن میں باندھنے سے قبل والدین کی جانب سے حتی المقدور اولاد کے بہتر اور درخشاں مستقبل کے فیصلوں پر بہت سے پہلوؤں پر مسلسل غوروخوض اور نظرثانی کے بعد ہی رضامندی ظاہر کیجاتی ہے تاہم اکثراوقات بعض گھرانوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد میاں بیوی کے مقدس رشتے میں کڑواہٹ اور نفرت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں جسکی بڑی وجہ مرد کا بیوی اور والدین کے حقوق میں توازن برقرار رکھنے میں ناکامی ساس اور بہو کی روایتی دشمنی نندوں کی حکمرانی دیگر رشتہ داروں کے تنازعات میں خود کو فریق بنالینا منہ زور بیوی کی خاوند کیساتھ روزمرہ کی نوک جھوک اور میاں کی اطاعت گزاری میں غفلت سسرالیوں کا میاں بیوی کے ذاتی معاملات میں مداخلت معاشی مشکلات میاں بیوی کے مابین اعتماد سازی کا فقدان شوہر کیجانب سے بیوی کو نان نفقہ کی عدم فراہمی پر اٹھنے والے تنازعات کے باعث بڑھتی ہوئی تلخیاں رفتہ رفتہ مستقل لڑائی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں اگر اس دوران معاشرے کے ہمدرد اور غیر جانبدارار اصلاح پسند دو قدم آگے بڑھ کر مثبت کردار ادا نہ کریں تو یہ خانگی تنازعات نفرت کی تمام حدیں پار کرکے اسقدر شدت اختیار کرلیتے ہیں جس سے نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے آئے روز ایسے بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں میاں بیوی کی علحیدگی
کے درمیان انکے دو دو تین بچوں کا مستقبل داؤپر لگ جاتا ہے آخر ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہوتا ہے جن کو محض خودغرض انا پسندی کی خاطر زمانے کے بے رحم تھپیڑوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے نہ انہیں ممتا کا پیار ملتا ہے اور نہ ہی باپ کی شفقت ہمارے معاشرتی مسائل تو ان گنت ہیں تاہم اگر معاشرے کے صاف گو افراد ان مسائل کو حل کرنے میں مخلص ہوں تو خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے لیکن ایسے معاملات میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ان مسائل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے اصلاح پسندوں کی تعداد انتہائی کم جبکہ تنگ نظر تماشبین کی تعداد ان سے کئی زیادہ ہوتی ہے اگر شرپسند امن پسندوں پر غالب آجائیں تو پھر خانگی جھگڑوں کا اختتام انتہائی خوفناک ہوتا ہے تاہم اگر موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے تناظر میں تشکیل پانے والی مقامی حکومتوں کی سرپرستی میں یونین کونسل سطح پر پنجائیت کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے تو ان مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے کیونکہ معاشرے کے باغی عناصر کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون کا سہارا لینا اور اس پر عملدرآمد کرانا بھی ایک اہم نکتہ ہے اگر پنچائیت کونسل کو مخصوص حالات کے پیش نظر مخصوص اور محدود قانونی دائرہ اختیار میں رہ کر خانگی مسائل حل کرنے کا حق دیا جائے تو اسکے وسیع امکانات موجود ہیں کہ ہمارے روزمرہ معاشرتی اور گھریلوں مسائل تھانہ کچہری کی بجائے پنچائیت کونسل کے موثر کردار کے زریعے مقامی سطح پر حل کیے جا سکتے ہیں گو دو خاندانوں کے درمیان جاری چپقلش میں کچھ سیاسی اور مقامی افراد نیک نیتی سے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سنجیدگی سے دوقدم آگے بڑھ کر اختلافات کو مٹانے میں مثبت کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں تاہم بعض کینہ پرور خود غرض اور لالچی افراد کا ٹولہ بھی اس دوران منفی کردار کے حوالے سے انکے مدمقابل آکھڑا ہوتا ہے جن کے عزائم فقط شرانگیزی پھیلانا محض نمائشی ہمدرد بن کر اپنے ذاتی مقاصد اور رنجشوں کا بدلہ دوسروں کی پیٹ پیچھے چھپ کر وار کرنا ہوتا ہے اگر ایسے افراد پر مشتمل گروہ ہمدرد بن کر خانگی معاملات میں دخل اندازی کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر خیر کی توقع رکھنا تو درکنار خاندانوں کی تباہی کے سوا کوئی آپشن نہیں باقی نہیں بچتا لہذا اگر انکی قبل از وقت منفی سرگرمیوں کی نشاندہی اور ردعمل میں بروقت مداخلت سے انکی شیطانی خواہشات کی تکمیل کے راستے پر بند باندھ دیاجائے تو انکے شیطانی وسوسوں کو شکست دے کر معاشرتی مسائل کے حل میں پیش رفت اور بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں تاہم اسکے برعکس اگر وہ اپنی منفی چالوں میں کامیاب ہوجائیں تو پھر آباد گھروں کو انکے شر سے بچانا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں