خاتونِ جنّت، دُخترِ رسول سیّد ہ فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا

سَیّدُِالعالَمین حضرت احمد مجتبیٰ ﷺ کے تین بیٹے اور چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ، طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے علاوہ ساری اولاد نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی وفات پاگئی تھی۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کے وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک تقریباً 35 سال تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خانہ ء کعبہ کی تعمیر نو ہورہی تھی۔اسی تعمیر کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے بہترین تدبیر کے ساتھ حجرا سود کو اس کی جگہ رکھ کر باہمی جنگ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا تھا اور آپ ﷺ کی اس تدبیر نے عرب کے تمام قبائل میں آپ ﷺ کی عظمت واحترام میں اضافہ کر دیا تھا۔


سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال 615ء میں مکہ میں ہوئی۔حضور اکرم ﷺ نے آپ کا نام فاطمہ رکھا کیوں کہ آپ ﷺ کی نانیوں اور دادیوں میں فاطمہ نام کی کثرت پائی جاتی تھی، اسی نسبت کو حضور اکر م ﷺ نے باقی رکھا، فاطمہ کا لفظ ”فطم“ سے ہے، جس کا معنی ہے قطع کرنا، چھڑانا یعنی وہ دنیا سے الگ کر دی گئی تھیں، آپ کے دو لقب تھے بتول اور زہراء۔ بتول کا معنی ”پاکیزہ”، ”پاکدامن”، یا ”کنواری” ہے ا وریہ لقب حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت مریم کو دیا گیا ہے، کیونکہ آپ دونوں پاکیزگی اور عفت کی علامت مانی جاتی ہیں۔


الزہرا ء کا معنی لسان العرب کے مطابق دُرۃ زہراء چمکتا موتی، یعنی بہت خوبصورت، کلی، یعنی باغ نبوت کی کلی کے ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا ء رضی اللہ عنہا کے اس کے علاوہ دیگر اسمائے گرامی جن پر اکثر مورخین کا اتفاق ہے میں السیدہ، الطاہرہ ، الزکیہ، المرضیہ اور سیدۃ النساء العالمین (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) زیادہ مشہورو معروف ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں مدنی کریم ﷺ نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ (سردار) ہیں۔


سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت اپنے گھر میں مدنی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ فاطمہ بنت اسد (زوجہ حضرت ابو طالب)، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، ام الفضل (حضور اکرم ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ) اور ام ہانی (حضرت علی ابن ابوطالب کی ہمشیرہ) وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔
مدنی کریم ﷺ کی محبت وتربیت نے آپ کو کمالات کی انتہا پر پہنچادیا، آپ اخلاق وعادات میں آپ ﷺ کی مکمل شبیہ تھیں۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضور اکر م ﷺ کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر اوجھڑی کو ہٹایا اور ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضور اکرم ﷺ ان کو فرماتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر! رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔

معجم طبرانی کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا۔حضرت علی و فاطمہ کی شادی
یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔کچھ روایات کے مطابق نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔ شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درہم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی۔جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔
انھوں نے چیزیں لا کر حضور ﷺ کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما۔


نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں اتارا گیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے بعد کی زندگی طبقہ ء نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا نہ کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔


7ھ میں حضو ر ﷺ نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔


اللہ تعالٰی کے کرم سے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان کے نام حسن ابن علی، حسین ابن علی، زینب بنت علی اور ام کلثوم بنت علی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور بیٹے کا بھی ذکر ہے جن کا نام محسن ابن علی ہے، لیکن ان کی پیدائش اور وفات کے بارے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ آپ نے اپنی بیٹیوں کے نام اپنی بڑی بہنوں کے ناموں پر ام کلثوم اور زینب رکھے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مشہور روایت کے مطابق 29سال کی تھی کہ جناب رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے رحلت فرمائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اب صرف وہی باقی رہ گئی تھیں، اس لیے ان کوصدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا، وفات سے پہلے ایک دن آنحضرت ﷺ نے ان کوبلابھیجا، تشریف لائیں توان سے کچھ کان میں باتیں کیں، وہ رونے لگیں؛ پھربلاکر کچھ کان میں کہا توہنس پڑیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ رضی
اللہ عنہا سے یکے بعد دیگرے رونے اور ہنسنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا، پہلی دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کروں گا، جب میں رونے لگی توفرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تمہی مجھ سے آکرملوگی تو میں ہنسنے لگی۔ وفات سے پہلے جب بار بار آپ ﷺ پرغشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ دیکھ کربولیں: وَاکَرْبَ أَبَاہُ ہائے میرے باپ کی بے چینی! آپ ﷺ نے
فرمایا: تمھارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا۔


آپ ﷺ کا انتقال ہوا توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پرایک مصیبت ٹوٹ پڑی، اسدالغابہ میں لکھا ہے کہ جب تک آپ زندہ رہیں پھرکبھی تبسم نہیں فرمایا۔آپ اکثر بیمار وغمگین رہا کرتیں، انتقال کے قریب ان کی طبیعت سخت ناساز ہوگئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لے گئے، خیر خیریت دریافت فرمائی اور مسئلہ میراث کے سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہا کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو ناراضگی تھی اسے دور فرمایا اور گھر آکر اپنی اہلیہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: حضرت فاطمہ کی تیمار داری میں ان کے پاس جاکر رہو، چناں چہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال فرمانے تک انہی کے پاس رہیں۔آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کے متعلق بہت سی روایتیں ہیں تاہم مشہور روایات کے مطابق آپ کی وفات3 رمضان المبارک بروز منگل گیارہ ہجری میں ہوئی۔انتقال سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غسل وغیرہ کے متعلق وصیت فرما دی تھی چناں چہ ان کی وصیت کے مطابق انھیں غسل دیا گیا، غسل دینے والوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور حضرت سلمی ام رافع رضی اللہ عنہا شامل تھیں جب کہ نماز جنازہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ بعض روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور بعض میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے۔


مستند تاریخی حوالوں کے مطابق حضور اکر م ﷺ کی تمام اولاد نرینہ بالکل بچپن ہی میں فوت ہوگئی تھی،چناں چہ آپ ﷺ کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا2۔3 سال سے زیادہ حیات نہ رہ سکا۔ باقی تینوں بڑی بیٹیوں میں سے کوئی بھی بیٹی30 سال سے زیادہ باحیات نہ رہ سکی اور آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں سب وفات پا گئیں تاہم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا اور زیادہ مشہور روایات کے مطابق آپ اپنی باقی تینوں بہنوں کے ساتھ مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں