428

حیاء کی ضرورت واہمیت

الحمدللہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہم میں سے ہرایک مسلمان آزادی سے اپنے مذہب پرعمل کرسکتاہے اسے اس میں کسی قسم کی کوئی ادنیٰ سی پریشانی کاسامنابھی نہیں کرناپڑتاہم مسلمان ہیں ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے یہ انسانوں کی بھلائی راہنمائی اورنجات کیلئے نازل کیاگیا۔انسان کے ساتھ نظام لازم ملزوم کی حیثیت رکھتاہے۔

اگرانسان کے اندرخواہشات‘جذبات اور احساسات ہیں تویہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے جبکہ وہاں اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات‘ شرافت‘ ظرافت‘ شرم وحیاء پاکدامنی بھی اسی انسان کے ایمان کاایک اہم حصہ ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں تہذیب وثقافت‘معاشرت ومذہب کے اندررہتے ہوئے شرم وحیا،عفت وعصمت پاکدامنی کادامن کبھی نہیں چھوڑناچاہیے۔ اسلام کی مسلمان کی اوراسلامی معاشرے کی خوبصورت پہچان حیاء جیسے مقدس سراپاخیر کردارسے ہوتی ہے کیونکہ اس سے اخلاقی اقدارکوتقویت ملتی ہے۔

عفت وعصمت کی حفاظت ہوتی ہے پاکدامنی کی لذت محسوس ہوتی ہے اس کی خیروبرکت کودیکھاجاسکتاہے۔ سب سے بڑھ کر معاشرے میں اس پرعمل کرتے ہوئے شرمندگی سے بچاجاسکتاہے۔ انسان کے اندراللہ نے خوبیاں رکھی ہیں ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیاء جیسے مقدس عنوان سے مزین ہے۔

یہ ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح‘ناپسندیدہ اورشیطانی کاموں سے بچ جاتاہے۔ دین اسلام نے بھی حیاء جیسے عنوان کوبیان کرکہ اسکی اہمیت کواجاگرکر کہ یہ پیغام دیاہے کہ جہاں اس پرعمل کرکہ مسلمان باحیاء بن جاتاہے وہاں معاشرے میں امن وسکون کے ساتھ بہت ساری عزتیں سمیٹتے ہوئے برائیوں سے بچ جاتاہے۔

قرآن مجیدمیں سورہ نورمیں ارشادباری تعالیٰ ہے”جولوگ چاہتے ہیں ایمان لانے والے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیاوآخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں“ دوسری جگہ فرمایا”مومن مردوں اورعورتوں سے کہہ دیجئے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں“سورہ النور میں مزیدارشادفرمایا”اپنی زینت ظاہرناکریں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پرڈالے رکھیں اپنی زینت کوظاہرناکریں مگراپنے خاوندکیلئے“

اسی طرح حدیث شریف میں ہے نبی کریم روف الرحیمﷺنے ایک مرتبہ ایک صحابی کودیکھاجواپنے بھائی کوسمجھارہے تھے کہ زیادہ شرم نا کیا کروتوحضورﷺ نے فرمایااس کوچھوڑدوکیونکہ حیاء ایمان کاجزو ہے ایک دوسری جگہ حضور ﷺنے ارشادفرمایاحیاء خیرکا ہی موجب ہوتی ہے ایک روایت میں ہے ”حیاء سراسرخیرہے“گو انسان جس قدرباحیاء ہوگااتنی ہی خیراس میں بڑھتی جائے گی

اسی طرح نبی کریم روف الرحیمﷺ ارشاد فرمایا ”حیاء ایمان کاحصہ ہے اورایمان جنت میں جانے کاسبب“ اب جب ہمارا دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے مکمل نظام حیات ہے تاقیامت عمل نجات ہے توپھرہمیں دوسروں کی نقالی کرنے کی دوسروں کے نقش قدم چلنے کی ضرورت کیاہے جب ہمارے سامنے اس وہ حسنہ موجود ہے ازواج مطہرات اور بنات رسولﷺ کی پاکیزہ زندگی واضح اور روشن کتاب کی طرح موجود ہے توہمیں کسی غیرسے تعلیم لینے کی ضرورت کیاہے۔

لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان سب خیرکی باتوں کو پاکیزہ تعلیمات کوچھوڑکرہمارامعاشرہ،موجودہ دورمیں ترقی کے نام پرغیراقوام کی اندھی پیروی کرتے ہوئے فحاشی عریانی‘بدتہذیبی‘بداخلاقی‘بے حیاء کوپروان چڑھانے کیلئے مختلف تہوارکاحصہ بنتاہے جس میں سے ایک 14فروری بھی ہے


جہاں یوم محبت کے نام پرعزتیں نیلام ہوتیں ہیں محبت کے نام پرجسم فروشی کی جاتی ہے۔ فحاشی کابازارسجایاجاتاہے ناجائز تعلقات کوگرل فرینڈز وغیرہ کانام دیاجاتاہے۔ شراب وشباب کی محفلیں سجائی جاتیں ہیں آزادی کے نام پربے حیائی وبے شرمی کی تمام حدیں پارکی جاتیں ہیں مردوزن کی مخلوط محفل کوروشن خیالی کانام دیاجاتاہے۔ تحائف کے بدلہ میں ہوس پوری کی جاتی ہے انسانیت کوعریاں کرکے شیطانی فعل سرانجام دیاجاتاہے‘ جنس پرستی کاعذاب مسلط کیاجاتاہے یہ بداعمال وافعال اب نائٹ کلب اور ہوٹل تک محدود نہیں رہے بلکہ پارک میں گلی میں چوک چوراہوں تک پہنچ چکے ہیں

حتی کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے گھرکی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں۔یہ ہمارے لئے ہمارے معاشرے کیلئے ہمارے ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ مغربی تہذیب وثقافت ہمارے لوگوں پرہمارے معاشرے میں سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلط کی جارہی ہے اس کا مقصدسوائے بے شرمی بے حیائی،ہوس کی پیاس بجھانے کے،سماج کی تباہی کے اور اللہ کے عذاب کے سواء کچھ نہیں اس سے ہمارامعاشرہ اورخاندانی نظام تباہ ہورہاہے‘

رشتوں کاتقدس پامال کیاجارہاہے‘ انسان کی اہمیت کوسربازارنیلام کیاجارہاہے اولاد اور والدین یادرکھیں یہ عذاب کی ایسی دلدل ہے جس میں گرنے کے بعداس سے نکلناناممکن ہے یہ دن یوم محبت نہیں بلکہ محبت کے نام پردھبہ ہے۔ اخلاقی ومعاشرتی تنزلی کاواضح ثبوت ہے شرم وحیاء سے بغاوت ہے منفی سوچ منفی رجحانات کافروغ ہے اسلام اسلامی تعلیمات عقائد ونظریات اسلامی ملک کی اسلامی معاشرے کی کھلم کھلا نفی کے ساتھ ساتھ ان کامذاق اڑانے کے مترادف ہے

اخلاص و اخلاق سے عاری مغربی تہذیب اغیارکی نقالی ان کے مشن پر گامزن فسق وفجورکی محافل کا اہتمام بھرپور ذہن میں نقش زہر آلودگی تنگ وتاریک دشوار راستوں پرچلنے کابھی انک انجام ہمارے سامنے ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس دن کاناصرف بائیکاٹ کیاجائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کی روک تھام بھی کی جائے اوراس کے خلاف آوازبھی بلندکی جائے ایساناہو ہم غفلت چادرلئے سوئے رہیں اور پانی سرسے گزرجائے پھرسوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نا ہو گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں