حکمرانوں کی بھوک کب مٹے گی

دنیا میں بے شمار ایسے خطے اور ممالک ہیں جہاں پر موسم انتہائی سخت اور بے رحم ہوتا ہے جیسے یورپ وہاں پر سردیوں میں سخت ترین سردی اور گرمیوں میں بھی موسم سرد وہاں کے مقامی لوگ گرمی جیسی نعمت سے محروم ہیں اسی طرح افریقی ممالک یہ خطہ انتہائی سخت گرم ہے یہاں کے باسی سردی اور اس کی کیفیت سے نابلد ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کئی گوشوں کو انتہائی سرسبز و شاداب و زرخیز پیدا کیا ہے جہاں پر تقریباً دنیا کے اکثر اناج کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ علاقے سخت اور کالی چٹانوں سیم و کلر پانی کی کمی کے باعث بنجر ہیں جہاں دنیا کا کوئی اناج پیدا نہیں ہوتا اسی طرح معدنیات کی بات کی جائے تو پھر بھی ایسی ہی تقسیم ہمارے سامنے آئے گی دنیا کا ایک کونا ایک معدنیات سے مالا مال تو دوسرا کونا دوسری معدنیات سے بھر پور ہے اس رحیم وکریم رب کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جس خطہ زمین یا ک میں پیدا کیا ہے وہ اس رب کی ہر نعمت سے مالامال ہے موسم کی بات کی جائے تو دنیا ایک یا دو موسموں سے آشنا ہوتی ہے یا ان سے واسطہ پڑتا ہے لیکن اہلیان برصغیر بالعموم اور اہلیان پاکستان بلخصوص چار موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ہر موسم کی الگ الگ خصوصیات ہیں جسے ہمارے حکمران بارہ موسموں سے تشبیہ دیتے ہیں اسی طریقہ سے پاکستان کی زمین کو اللہ رب العزت نے دنیا کی زرخیز ترین میدان عطا کیے جہاں پر دنیا کی ہر فصل کاشت کی جاسکتی ہے وسیع وعریض صحرا دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں دنیا کا بہترین نہری نظام سب کچھ موجود ہے لیکن اس کے باوجود زرعی پیداوار میں روز بروز کمی واقع ہو رہی ہے کچھ دہائیاں قبل زرعی اجناس میں خود کفیل ہی نہ تھے بلکہ ان سے بہت زیادہ زر مبادلہ بھی کماتے تھے دنیا بھر میں ہمارا چاول آم کینو مشہور تھے اور اب بھی مشہور ہیں اور ان کی طلب بھی ہے مگر ہم نے ان فصلوں کو بڑھانے کی بجائے گھٹانا شروع کر دیا ہے آم کے باغات کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانا شروع کردیا ہے دنیا اپنی رہائش کو سمیٹ رہی ہے یعنی فلائٹس پر منتقل کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقبے پر فصلیں کاشت کی جا سکیں تاکہ اس سے ملکی ضروریات پوری کی جا سکیں ایک ہم ہیں اب ہم بڑے بڑے محلات بنا رہے ہیں اور نہ ہی زراعت پر توجہ دے رہے ہیں کوریا جیسا ملک ہمارے پانچ سالہ منصوبے کو لے کر آج کہاں کھڑا ہے اور ہم آج ان ہی سے قرضے مانگ رہے ہیں کتنے شرم کی بات ہے ہم مارشل لاء کو بہت برا بھلا کہتے ہیں ہو تا ہو گا برا لیکن جتنے بھی اہم کام ہمارے ملک میں ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مارشل لاء کے دور ہوئے پہلے مارشل لاء تو ہم نے نہیں دیکھے مشرف صاحب کا نیم مارشل لاء دیکھا ہے جس میں دہشتگردی کی لعنت تو بڑ گئی تھی لیکن مجموعی طور پر دور اچھا گزرا وہ واحد حکمران تھا جو جب بھی عوام سے مخاطب ہوتا ایک ہی بات کرتا پیسہ بڑا ہے خزانہ بھرا ہوا ہے لیکن اس سے پہلے اور بعد میں ایک ہی شنید سنائی دیتی ہے خزانہ خالی ہے پتہ نہیں خزانہ کہاں گیا بات کریں معدنیات کی تو اس سے بھی ہمارا پیارا ملک مالامال ہے کوئلہ تانبا پیٹرول سنگ مرمر کی مختلف اور مہنگی اقسام گرینائٹ دیگر بہت ساری دھاتیں موجود ہیں پہلی بات کہ ہم نکال نہیں رہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اگر کسی دوسرے ملک کو ٹھیکہ دیتے ہیں نکالنے کا تو اپنی من پسند ضرور رکھتے ہیں کہ کون سی جگہ کام کرنا ہے اور کون سی جگہ نہیں اس سے بھی نقصان در نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اس دھات کو تلاش کرنے پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اب نہ نکالنے سے دوسرا نقصان ہو رہا ہے پھر جو منسٹر صاحب اس وقت براجمان
ہوتے ہیں وہ اپنا حصہ پہلے لے لیتے ہیں اس حصے کے بدلے میں اس کمپنی کو مراعات سے نوازا جاتا ہے دیکھیں ان ہی گھپلوں کی وجہ سے ریکوڈک پروجیکٹ کئی دھائیوں سے التوا میں پڑا ہوا ہے پھر جب کوئی معدنیات جہاں سے نکلتی ہے اس علاقے کو اس کے ثمرات سے مستفید نہیں کیا جاتا یا یوں کہ لیں اس علاقے کو پراپر اس کی رائیلٹی نہیں دی جاتی وہ علاقہ جوں کا توں پسماندہ ہی رہتا ہے جس سے اہلیان علاقہ کے اندر بغاوت پیدا ہوتی ہے جیسے بلوچستان میں سب سے زیادہ معدنیات نکالی جارہی ہیں لیکن بلوچ عوام سب سے غریب ہیں پورا بلوچستان اب بھی دنیا سے کئی دہائیاں پیچھے ہے اسی طرح آپ دور نہ جائیں چک بیلی خان سے گیس جیسی نعمت نکل رہی ہے لیکن اھل علاقہ کی کسمپرسی دیکھ لیں اس ترقی یافتہ دنیا میں چک بیلی خان کی عوام کو اب جا کر ایک ہسپتال ملا ہے جو ابھی تک مکمل فعال نہیں ہوا پتہ نہیں مکمل فعال ہو گا بھی کہ نہیں کیونکہ ہماری سیاست تختی کے گرد گھومتی ہے یہاں فلاں کی تختی لگی ہے یہ اس کا منصوبہ تھا اس لیے اس کو مکمل نہیں ہونے دینا یہ نہیں دیکھنا کہ اس وجہ سے ملک کا کتنا نقصان ہو گا اور اہلیان علاقہ بھی کتنے متاثر ہوں گے ہم غریب عوام سب سے زیادہ بے وقوف ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اسی کے نعرے زیادہ لگائیں گے یہ سب ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت سے مالامال ملک جو ہزاروں قربانیوں کے بعد صرف اور صرف غریب عوام کے لیے یہ ملک لیا تھا لیکن اس نے آگے چل کر لٹیروں کے سپرد کر دیا اور خود تماشائی بن کر اپنی کھلی آنکھوں کے سامنے ملک وقوم کے خزانے کو لٹاتے رہے اور حکمران بے رحمی سے لوٹ کر بیرون ملک اپنی جائیدادیں بناتے رہے غریب پھر بھی نعرے لگاتا رہا اور لگا رہا ہے اور لگاتا رہے گا اس سے بڑھ کر غریب کی لاتعلقی کیا ہوگی ملک کی ہر اہم چیز قرضے کے عوض گروی پڑی ہے اس وقت ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں زرمبادلہ دس ہزار سے کم ہو کر ساڑھے چار ہزار تک پہنچ چکے ہیں کھانے پینے کی اشیاء نایاب بھی ہو رہی ہیں اور ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں پیاز جو کبھی غریب کا ساتھی ہوا کرتا تھا اس کی غربت کا بھرم رکھنے کے لیے اب وہ اس کی پہنچ نہیں سوچ سے مہنگا ھو گیا ہے آٹا کی قیمت سو گنا بڑھ گئی ہے لوگ فقیروں کی طرح پیسے ہاتھ میں لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہ کر ایک توڑا آٹا کو ترس رہے ہیں جس کے ہاتھ میں وہ جادوئی توڑا آتا ہے وہ اس وقت اپنے آپ کو فاتح اعظم اور دنیا کا خوش قسمت ترین آدمی سمجھتا ہے اسے نہیں معلوم یہ خوشی دو دن کی ہے پرسوں پھر میں یہاں ہی ذلیل و خوار ہو رہا ہوں گا اللہ رحم کرے ہم غریبوں پر ہمارے حکمرانوں کے پیٹ کب بھریں گے ملک کے سارے خزانے ملک کے بڑے بڑے ادارے کھا کر بھی ان کے پیٹ نہیں بھر رہے پتہ نہیں ان کی بھوک کیسے مٹے گی اب تو بچا بھی صرف اور صرف ایٹم ہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں