195

حکایت سعدی

قرض
بیان کیا جاتا ہے کہ چند صوفیوں نے ایک بنیے سے ادھار لے لیا لیکن بروقت رقم ادا نہ کر سکے بنیا ہر روز تقاضا کرتا اور انھیں سخت سست کہتا تھاصوفیوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ

تھا کہ بنیے کی تلخ باتیں سنیں اور خاموش رہیں ایک دانشمند نے انھیں اس ذلت میں مبتلا دیکھا تو کہاکہ آج جس طرح تم لوگ بنیے کا تقاضا سنتے اور اسے ٹال دیتے ہو اگر اسی طرح اپنی خواہشوں کو ٹال دیتے تو بہتر تھاحضرت سعد یؒ نے اس حکایت میں قرض لینے کی مذمت کی ہے اور اس سے بچنے کا نہایت آسان اور عمدہ طریقہ بتایا ہے ان کا ارشاد ہے کہ جس طرح ایک مفلس شخص قرض خواہ کا تقاضا سن کرخاموش رہتا ہے اور اس کی تلخ باتوں کو بھی برداشت کرتا ہے اسی طرح اگر وہ اپنے نفس کے تقاضے پر خاموش رہے اور نفس کی ترغیب کا شکار نہ ہو تو ہر طرح کی ذلت سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں