63

حوصلے کی جنگ

آج ایک ایسا واقعہ پڑھا جس نے میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک گرگٹ، جو کہ ایک کمزور سا جانور ہے، اُس پر ایک طاقتور سانپ نے حملہ کیا۔ سانپ نے اُسے اپنے جبڑے میں جکڑ لیا اور نگلنے لگا۔

بظاہر گرگٹ کی ہار یقینی نظر آ رہی تھی۔ وہ بالکل بے بس اور لاچار تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اُس نے ہار نہ مانی۔اس نے سانپ کے منہ میں جا کر بھی لڑنا جاری رکھا۔ اس کا جسم آہستہ آہستہ سانپ کے اندر جا رہا تھا، لیکن اس کی روح زندہ تھی،

اُس کی امید ابھی باقی تھی۔ اس نے سانپ کو اندر سے کاٹنا شروع کیا۔ یہ ایک معمولی جانور کی طرف سے غیر معمولی ہمت تھی۔ اُس نے اپنے جسم کے ٹکڑے قربان کیے، لیکن لڑائی جاری رکھی۔ آخر کار وہ اس قابل ہو گیا کہ سانپ کے جسم کو اندر سے پھاڑ کر اپنا سر باہر نکال لے۔

شاید وہ زندہ نہ بچ پایا ہو، لیکن اُس نے ثابت کر دیا کہ اصل طاقت جسم کی نہیں، حوصلے کی ہوتی ہے۔آج مجھے یہ واقعہ بہت کچھ سکھا گیا۔ زندگی میں مسائل اور مصیبتیں سانپ کی طرح ہمیں نگلنے آتی ہیں۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

لیکن اگر ہم ہار نہ مانیں، اگر ہم اندر سے لڑنا جاری رکھیں تو شاید ہم مصیبت کو ختم نہ بھی کر سکیں، مگر اُسے بے اثر ضرور بنا سکتے ہیں۔یہی اصل جیت ہے – آخری لمحے تک لڑنا، ہمت نہ ہارنا۔مجھے اب یہ بات اور بھی واضح طور پر سمجھ آ گئی ہے کہ:“زندگی کی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے، لوگ تو بس مبارکباد دینے یا فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔”لوگ ہمارے ساتھ صرف کامیابی یا ناکامی کے بعد جڑتے ہیں۔

لیکن وہ لمحے جب ہم اندھیرے میں ٹٹول رہے ہوتے ہیں، جب ہم زندگی اور موت، امید اور نا امیدی کے بیچ معلق ہوتے ہیں – اُن لمحات میں صرف ہم خود ہوتے ہیں، ہمارا حوصلہ، ہماری کوشش۔آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے حالات جیسے بھی ہوں، میں کبھی ہار نہیں مانوں گا۔ چاہے دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، میں گرگٹ کی طرح آخری سانس تک لڑوں گا۔ کیونکہ شکست وہی ہے جو انسان خود مان لے، ورنہ ہر کوشش ایک کامیابی ہے۔یہ واقعہ میری زندگی کا ایک نیا موڑ بن سکتا ہے – اگر میں چاہوں

خبر پر اظہار رائے کریں