239

حنا عنبرین‘ نظم گو شاعرہ

غزل نظم اور افسانہ ادبی دنیا میں بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں اور رہیں گے ادبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اک دور میں کبھی افسانہ عروج پکڑ لیتا ہے

کبھی نظم اور کبھی غزل ان تینوں اصناف میں کافی لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا کچھ لوگ افسانہ نگاری کچھ غزل اور کچھ نظم میں اپنی انفرادی پہچان بنا لیتے ہیں

اور اسی نسبت سے ادبی دنیا ان کو پکارتی اور خوبصورت حوالے سے یاد بھی کرتی ہے۔ نظم کا ایک الگ اپنا جہان ہے جس کے تخلیق کاروں میں اکثر علامت نگاری سے نظم کی زلفیں سنوارتے ہیں

لیکن کچھ قاری کو مدنظر رکھ کر نظم کہتے ہیں اور یہ سہل ممتنع میں اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔پھر تھوڑا اور آگے بڑھیں تو کچھ فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ محبت و نفرت اور دنیا کے منافقانہ رویوں، نا انصافی، بے بسی میں بہتے انسوؤں سے نظم میں رنگ بھرے جاتے ہیں

۔اگر خواتین میں نظم گو،شعرا میں دیکھیں تو پروین طاہر اک معتبر نام ہے ان کے بعد اک ابھرتا ہوا نام حنا عنبرین کا ہے کسی عورت شاعرہ کا نظم کی طرف یوں غیر متزلزل اور شاندار انداز میں قدم بڑھانا کہ نظم اس کے ہاتھ آ کر خود کو سنوارنے پر رشک کرے، قابل داد ہے

یہ صنف غزل سے مشکل ہے۔ حنا کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو حنا کی نظمیں ہمارے سماج کی مکمل عکاس ہیں جب اک عورت ادب کی کسی صنف میں طبع آزمائی کر رہی ہو

تو اس کے ادبی فن پارے میں عورت اور اس کی تمام خواہشات نظر آنی چاہییں۔اور حنا کے ہاں یہ نسائی اظہاریے اس قدر خوبصورت اور مکمل شکل میں قرطاسِ تخلیق پر نقش ہوتے ہیں

کہ داد دیے بنا بنتی نہیں حنا کی شاعری میں اس کے
مسائل اور خواہشات کا اظہار کھل کر ملتا ہے حنا
اپنی کتاب میں مکمل اور واضح نظر آتی ہے اس کے مسائل اس کا مشاہدہ اس کے سماجی تجربات اور اپنوں کی بے وفائی کا تذکرہ اپنوں سے گلے شکوے جدائی کی اذیت وصل

اور فراق کے لمحوں کی کیفیات کا بہت خوبصورت پیرائے کی ان نظموں اظہار ملتا ہے۔ حنا کسی کسی جگہ شکوہ بھی کرتی نظر آتی ہیں

یہ اپنے اندر دیکھنے کے ساتھ دنیا کو بھی بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہے پھر یہ اپنے وجود کی تکمیل کے ساتھ معاشرے کی تکمیل کے لیے نظموں میں کھل کر اظہار کرتی ہیں۔

ان کی یہ نظم عورت کی بے بسی اور اس کو جھوٹے خواب دکھاکر اذیت سے دوچار کرنے کی مکمل ترجمانی کر رہی ہے۔
نظم دیکھیے۔
(شاہ زادی)
اس نے مجھ سے کہا
شاہزادی ترے واسطے گرم اور ٹھنڈے شفاف
پانی کے
آرام دہ حوض ہیں
شاہزادی ترے ہاتھ میلے نہ ہوں
میں ترے واسطے کنیزیں مقرر کروں
آئندہ ہے کہ پاؤں ترے فرق کیسے کروں
تیری آنکھیں ہیں یا شبنمی جھیل ہیں
یہ سبھی لفظ تھے کھوکھلے
مجھ پہ تب یہ کھلا
جب مجھے اس کی باندی بنایا گیا
گھر کے کاموں سے ہاتھوں پہ چھالے پڑے
اور اس کے عوض
چند سکے مرے ہآتھ پر اس رعونت سے رکھے گئے
میرا دل بجھ گیا
اور سر جھک گیا
یہ نظم اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس کتاب کی خالق بہت ہی حساس دل ہیں دوسری
عورت کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہیں

یہ پھر نا انصافیوں پر ماتم کرتی ہیں خود تو روتی ہیں باقی دنیا کو بھی رلاتی ہیں۔ اس نظم کو دیکھیں تو اس میں ان کا نیا روپ سامنے آ جاتا ہے یہ خود کو اتنا مضبوط بنا لتی ہیں

کہ سب کو گُھٹنے جھکانے پڑ جاتے ہیں حنا اک مضبوط چٹان کی طرح دنیا کا سامنا کرتی ہیں ہے اس کا یہ طرز انداز داد کے قابل ہے یہ نظم دیکھیں۔
(تو نہیں جانتا)
تو نہیں جانتا
کہ یہ تیرے سدھائے ہوئے
خواہشوں کے مجاور نہ جانے اذیت
کے کس مرحلے سے گزر جاتے ہوں گے
تجھے کچھ خبر اس کے بارے نہیں ہے
مگر یاد رکھ!بے نیازی دکھائیں گے ہم
اور پھر تو اگر منتیں بھی کرے
بے نیازی کی مسندنیچے اتر کر نہیں آئیں گے
تو نہیں جانتا!
یہ نظمیں دیکھنے کے علاوہ جب ”بڑے بے خبر ہو،شجر ممنوعہ تخلیق، منتر.،دھاگے،تو کہاں رہ گیا،بے چہرگی،ناسٹیل جیا،خدا کی فرینڈ لسٹ میں ” جیسی نظمیں مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے

حنا اپنے ارد گرد سے کتنی واقف ہے یہ زندگی کو اپنے اندا ز سے سوچتی ہے پرکھتی ہے یہی اس کی انفرادیت ہے۔نظم بالخصوص وہ صنف ہے

جو اپنے مرکزی خیال کو نظم کے وسیع کینوس پر پھیلے ورق پر ایسے متشکل کرتی ہے کہ مرکزی خیال پوری نظم میں ہمکتا ہوا نظر آتا ہے اور حنا کی نظموں میں یہ دعویٰ اپنے وجود کی گواہی دیتا نظر آتا ہے

اردو اور پوٹھوہاری زبان کے خوبصورت شاعر عبدالرحمان واصف اپنے خیالات کا ایسے اظہار کرتے ہیں کہ حنا کی نظم اپنے مرکزی خیال سے بے بہا مضبوطی سے جڑی ہے

لیکن یہ اپنے سفر میں شرق و غرب اور شمال و جنوب کی تجلیوں کو بھی منظر کا حصہ بناتی ہے اور تھوڑا تھوڑا حصہ اپنے اکناف و اطراف سے بھی وصولتی ہے

لیکن مجال ہے کہ مرکز سے جڑت کا کوئی تار کوئی ریشہ لمحہ بھر کے لیے کمزور پڑے یہ رائے اس کے انفرادی انداز اور جاندار آواز کو نمایاں کرتا ہے ان کا یہ نقش دیکھتے ہوئے کہنا پڑ جاتا ہے

کہ اگر یہ اسی طرح آگے بڑھتی رہیں اور روایتی نظم کے ساتھ جدید نظم سے دامن جوڑا تو ان کا اگلا نقش ان کو دائمی مقام دلا دے گا۔
حنا یاب کی شاعرہ کے لیے بے بہا دعائیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں