115

حقیقت تصوف

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے
تزکیہ،احسان،تصوف جیسے الفاظ اس حوالے سے ہماری نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔تصوف ایک مستقل موضوع ہے جس کی اصطلاحات بھی ہیں اس کو لغت کی بنیاد پہ نہیں پرکھا جا سکتا۔اس باب میں تصوف میں کئی رجال ہیں جن کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔آج اس حوالے سے مشائخ تصوف سے ہم رہنمائی لیں گے ان کے تصوف کی حقیقت کیا ہے۔میرا تعلق بھی اک روحانی پس منظر کے خانوادہ جمالیہ گھنیلا شریف سے ہے ہم خود اس کھوج میں ہیں نسبت اویسی و خضری کے حوالے سے کئی چیزیں زیر غور ہیں۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیؒ فرماتے ہیں:
”ایک مرتبہ 10 بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جا کر کہا کہ رئیس الاحرار (حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ جن سے حضرت شیخؒ کی بے تکلفی تھی) آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے، میں نے کہا۔ جلدی سے بلا دے۔ مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا کر کہا، رائے پور جا رہا ہوں اور ایک
سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پر سوں
صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتداء انما الاعمال بالنّیّات سے ہوتی ہے اور انتہا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ ہے، میرے اس جواب پر سکتہ میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں، میں نے کہا جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہو۔ اس بات کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی۔ مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ کل رات کو تو ٹھیرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھیرنا ضروری ہو گیا اس لئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت، میں نے کہا علیٰ ہٰذا القیاس۔ مرحوم نے کہا، مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا، میں نے کہا، انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے
کا بھی نہیں۔ انما الاعمال بالنّیات سارے تصوف کی ابتداء ہے اور ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎
حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا
میں نے کہا، مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے پیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کے اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کے لئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کیلئے ہرزمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضو ں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے، پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔“

مفتی مختیار الدین شاہ صاحب لکھتے ہیں۔تصوف کی حقیقت اور اس سے متعلق غلط فہمیاں تصوف کی حقیقت کو سمجھنے میں نہ صرف عوام بلکہ بعض خواص بھی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی غیر ضروری اور غیر متعلقہ باتوں کو تصوف کا جزو سمجھ لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کشف و کرامات اور تصرفات کو تصوف کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، کچھ لوگ تعویذات، گنڈے، اور جھاڑ پھونک کو تصوف کا حصہ مان لیتے ہیں۔ کچھ افراد خاص رسموں اور عادات کو ہی تصوف سمجھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی فلسفی مزاج ہو تو وہ تصوف کو ”وحدت الوجود”یا“وحدت الشہود” جیسے نظریات تک محدود کر دیتا ہے۔

بعض لوگ بیعت کو صرف اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن شیخ (پیر) ان کی بخشش کا ذمہ دار ہوگا۔ کچھ لوگ دنیاوی ترقیات، جیسے روزگار، منصب، اور عزت میں اضافے کے لیے تصوف کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ صرف باطنی کیفیات اور کشف و کرامات کے حصول کے لیے تصوف کی طرف راغب ہوتے ہیں۔یہ تمام تصورات نہ تو تصوف کے لازمی اجزاء ہیں، نہ ہی یہ اس کا اصل مقصد ہیں۔ درحقیقت، ان میں سے کچھ تصورات باطل ہیں اور تصوف سے بالکل الگ ہیں۔ بعض لوگوں نے تو تصوف کو ایک راز بنا رکھا ہے، جو صرف سینہ بہ سینہ چلتا آ رہا ہے، اور وہ اسے شریعت کے مخالف سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ بھی سراسر غلط ہے۔ حقیقی تصوف وہ علم اور طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان کا اللہ تعالیٰ سے صحیح اور مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کے اندر سے برے اخلاق (رذائل) دور ہو جاتے ہیں اور وہ ایمانی صفات اور اخلاق حسنہ سے مزین ہو جاتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں