حضرت عمر ؓ کا عدل اور ہمارا عدالتی نظام

وہ ایک بزرگ شخصیت کمر کے بل جھکی ہوئی ہے اور ایک صاحب ان کی کمر پر کھڑے اپنے گھر کا پرنالہ لگا رہے ہیں، اس منظر کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو چکا ہے مگر ان بزرگ ہستی کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑی بلکہ نہایت اطمینان کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ بزرگ ہستی کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ اپنے دو میں دنیا کے طاقتور ترین حکمران حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی کمر پر رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے اپنے گھر کا پرنالہ لگا رہے تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عباس ؓ کے گھر کا پرنالہ مسجد نبوی ؐسے متصل تھا جس کے پانی سے نمازیوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا، حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں اس پرنالے کو اکھاڑ دیا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ حضرت عباس ؓ کو علم ہوا تو وہ قاضی کی عدالت میں پہنچ گئے اور حضرت عمر ؓ کے خلاف شکایت کی تو قاضی نے خلیفہ وقت عمر بن خطاب ؓ کو طلب کر لیا۔ آپ ؓ عدالت میں حاضر ہوئے تو قاضی نے پرنالہ اکھاڑنے کی وجہ دریافت کی تو آپ ؓ نے نمازیوں کی تکلیف کا عذر بیان کیا۔ جواب میں حضرت عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ ﷺ نے خود لگوایا تھا جس پر حضرت عمر ؓ رو پڑے اور فرمایا کہ اگر واقعہ ایسا ہے تو پھر میں کمر کے بل جھکتا ہوں اور آپ میری کمر پر کھڑے ہو کر پرنالہ دوبارہ لگا دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد حضرت عباس ؓ نے وہ مکان مسجد کی توسیع کے لیے وقف فرمادیا۔
حضرت عمر ؓ عدل و انصاف میں یکتا ہیں جن کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ آپ ؓ نے عدل و انصاف قائم کرتے ہوئے کبھی کسی کے عہدے، مرتبے یا دولت و شہرت کو خاطر میں نہیں لایا اور ہمیشہ انصاف فرمایا۔ جس کے متعدد واقعات ہمیں تاریخ و سیرت کی مستند کتابوں میں ملتے ہیں۔ چنانچہ فتوح شام میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ملک غسان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا، چند روز کے بعد حضرت عمر ؓ حج کے ارادہ سے نکلے تو جبلہ بھی اس قافلے میں شامل ہو گیا۔ ایک دن مکہ مکرمہ میں طواف کرتے ہوئے کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چاد رپر آگیا اور چادر کندھے سے سرک گئے، اب تھا تو وہ بادشاہ اور شاہی غرور اور گھمنڈ ابھی اترا نہیں تھا لہٰذا اسے دیہاتی پر سخت غصہ آیا اور دیہاتی سے پوچھا کہ تم نے میری چادر پر پاؤں کیوں رکھا؟ دیہاتی مسلمان نے جواب دیا کہ ایسا غلطی سے ہو گیا ہے۔ جبلہ نے اس زور سے اس مسلمان کے چہرے پر تھپڑ مارا کہ ان کی ناک اور دانت زخمی ہو گئے۔ وہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصہ سنایا تو آپ ؓ نے جبلہ بن ایہم کو طلب کیا اور واقعہ کی حقیقت دریافت کی جس پر جبلہ نے کہا کہ اگر میں حرم میں نہ ہوتا تو اسے اس گستاخی پر قتل کر دیتا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم اپنی غلطی کا اعتراف کر چکے ہو، اب تم دیہاتی سے معافی مانگو یا قصاص کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جبلہ نے کہا آپ ایک غریب دیہاتی کے لیے مجھ سے قصاص لیں گے آپؓ نے فرمایا، ”اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو“ اس پر جبلہ نے گزارش کی کہ مجھے ایک دن کی مہلت دی جائے، دیہاتی کی اجازت سے اسے مہلت دی گئی لیکن وہ راتوں رات واپس غسان کی طرف بھاگ گیا اور عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔یہ حضرت عمر ؓ کی ہی عدالت تھی جس میں ایک غریب گم نام دیہاتی کو بھرے دربار میں کسی ملک کے بادشاہ کے چہرے پر زور دار تھپڑ مارنے کا حق حاصل تھا۔ اس کی مثال نہ پہلے کبھی ملی اور نہ بعد میں۔ یہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو عملی طور پر عدل و انصاف کے
مفہوم سمجھائے۔
آپ ؓ اپنی ذات کو بھی کسی دوسرے پر ترجیح دینا پسند نہیں کرتے تھے اور عدالت میں بنفس نفیس پیش ہو جاتے تھے۔ جس طرح دعویٰ کرنے والے کے ساتھ سلوک کیا جاتا اسی طرح خلیفہ وقت، آدھی دنیا کے حکمران حضرت عمر فاروق ؓ کے ساتھ بھی سلوک ہوتا تھا۔ اگر کوئی عدالت میں آپ کی تعظیم و تکریم کی ذرا برابر کوشش کرتا تو آپ ؓ اسے ناپسند فرماتے اور وہیں اس کی سرزنش ہوتی۔ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب ؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ جو قاضی کے فرائض سر انجام دیتے تھے، ان کی عدالت میں حضرت عمر ؓ کے خلاف مقدمہ کر دیا۔ آپؓ جب عدالت میں پیش ہوئے تو حضرت زید بن ثابتؓ نے آپ ؓ کو تکریماً اپنے قریب عزت سے بٹھانا چاہا تو آپ ؓ نے فرمایا پہلا ظلم تو تم نے یہ کیا۔ میں اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا چنانچہ آپؓ ابی بن کعب ؓ کے ساتھ بیٹھے رہے۔ پھر حضرت زیدؓ نے ابی بن کعبؓ سے اپنے دعوے پر گواہ پیش کرنے کو کہا لیکن وہ گواہ نہ پیش کر سکے تو ضابطے کے مطابق حضرت عمرؓ پر قسم بنتی تھی تو حضرت زیدؓ نے ابی بن کعبؓ سے کہا کہ آپ امیر المؤمنین سے قسم لینے سے درگزر کریں تو حضرت عمرؓ نے قسم کھائی اور فرمایاکہ زید اس وقت تک منصب قضا کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک عمر اور ایک عام شخص اس کے نزدیک برابر نہیں ہو جاتے۔
آپ ؓ کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات ہیں،۔ یہ واقعات عدل و انصاف پر مبنی ہیں آپ نے انسانیت کو عدل و انصاف کی ایسی معراج دکھائی جس نے انسانیت کو دنگ کر دیا اور بعد میں آنے والے انسان ان کے قریب تر بھی نہ پہنچ پائے۔ آپ ؓ کے عدل کا چرچا تاقیامت رہے گا اور اپنے تو کیا پرائے بھی آپ کے عدل و انصاف کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو راہ دکھانے کے لیے اتنی اعلیٰ صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں تاکہ بعد میں آنے والے انسان بالخصوص مسلمان ان کی اتباع کر یں۔ لیکن یہاں تو مسلمان ہی ان کی پیروی نہیں کر رہے تو غیر مسلموں سے کیا شکوہ؟
ایک وہ ہستیاں تھیں جن کے ہم نام لیوا ہیں کہ ان کے عدل و انصاف پر غیر مسلم اور جانی دشمن بھی رشک کرتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ ہمارا نظام عدل و انصاف دیکھ کر غیر مسلم بھی شرما جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عدالت کمائی کے اڈے اور جھوٹ کے مراکز بنی ہوئی ہیں۔ عدالت کا رخ کریں تو جج سے لے کر اشٹام فروش تک ہر شخص پیسے بٹورنے کے درپے ہے چاہے اس کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے۔ جج طرفدار ہیں اور فیصلوں میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند یا کسی کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ وکیلوں نے جھوٹ بول بول کر اس پیشے کو بدنام کر رکھا ہے، وہ اپنے معاوضے کے لیے مجرم کو معصوم اور معصوم کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت معلوم ہونے کے باوجود جج انصاف پر مبنی فیصلے نہیں کرتے اور جانتے بوجھتے ہوئے کرائے کے گواہوں کے بیانات بھی سنتے ہیں۔ عدالتی نظام انتہائی ناقص ہے جس پر کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بدامنی، افراتفری اور انتشار پھیلا ہوا ہے۔ اگر صرف عدالتی نظام درست ہو جائے تو سب خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں