حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار ؒ1617ءمیں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی ۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی ۔ سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی ۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف, کربلا, سامرہ اور مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا ۔
جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ سید کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ, وعظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی ؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے.. توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ ؒ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہو گئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔
آپ سادات کے ایک مایہ ناز گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کا شجرہ نسب تاجدار امامت حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے ہوتے ہوئے امامت کے ساتویں تاجدار امیر بغداد حضرت امام موسی کاظم ؒ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت امام موسی کاظم ؒ , حضرت علی کی اولاد ہونے کے ناطے سے آپ کو کاظمی سید کہا جاتا ہے ۔ خطہ پوٹھوہار کی بزرگ ہستی حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار ؒ نے اپنے جد امجد سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے اتباع کو زندہ کر دیا اور اسلام کی تعلیمات کے فروغ اور عوام الناس کیلئے اعلی کردار کی مثال پیش کی ۔ قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔
حضرت بری امام سرکار نے فقہ اور حدیث کی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی زیارت کیلئے مکہ معظمہ, مدینہ منورہ, کربلائے معلی اور دوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود جید علماءاور اولیا سے مزید دینی علوم اور روحانی فیوض حاصل کئے ۔ بری امام یہ سفر بارہ سال پر محیط ہے ۔ آپ مستقلاً وہاں ولی کامل حضرت حیات المیر ؒ سے بیعت تھے ۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ؒ ہی نے عطاءکیا تھا ۔ اللہ تعالی نے اپنے ولیوں کی تعریف قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ۔ ترجمہ : بے شک اللہ تعالی کے ولیوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے “دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالی نے فرشتوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کام پر لگا دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنا کسی طرح جائز نہیں اسی طرح اللہ تعالی کا قانون جن و انس میں جاری و ساری ہے اور انسانوں میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے بعض لوگوں کو مخصوص اختیارات تفویض کر کے مقرر کیے جاتے ہیں ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کا شمار بھی عظیم شعراءمیں ہوتا ہے ان کی شاعری میں بھی آپ کو تصوف کا رنگ بھرا نظر آئے گا ۔ اولیاءاللہ کے مقام کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے ۔
نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
ایک مرتبہ آپ ؒ کہیں سفر پر جا رہے تھے اور آپ کا مرید خاص مٹھا شاہ بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے ۔ ابھی آپ نے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ کا راستہ روک لیا مگر جونہی ان کی نظر آپ کے چہرہ مبارک پر پڑی اور انہوں نے آپ کی گفتگو سنی تو جرائم سے ہمیشہ کیلئے تائب ہو گئے اور اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ کے مرید بن گئے ۔ آپ نے یہیں اقامت اختیار کر کے تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور اس طرح چور پور میں اسلام کے نور کی روشنی پھیلا کر اسے ہمیشہ کیلئے نور پور بنا دیا ۔ یہ وہی نور پور شاہاں ہے جہاں آج آپ کا مزار مبارک ہے اور ہزاروں لوگ یہاں اپنی عقیدتوں کا اظہار کرنے آتے ہیں ۔
آپ نے دو مغل شہزادوں کی بالخصوص تربیت کی اور دینی روحانی اصلاح کر کے ایک شہزادے کو راہ سلوک کی دنیا میں گم کر دیا اور اس کا نام آپ نے شاہ حسین رکھا۔ اگرچہ یہ شہزادہ مادی دنیا کا پرستار تھا لیکن ایک مرد کامل کی نگاہ اثر سے اس کے سوچنے کا انداز بدل دیا ۔ اس کرامت سے متاثر ہو کر شہزادے کی اپنی باقی زندگی بری امام سرکار ؒ کے قرب میں گزری اور دوسرا شہزادہ اورنگزیب عالمگیر تخت و تاج کا مالک اور دین کی تبلیغ کیلئے دنیاوی شہنشاہ بنا ۔
نور پور شاہاں کے قریب ایک مقام ہے جس کا نام لوئے دندی ہے یہاں بیٹھ کر حضرت بری امام ؒ اکثر عبادت الہی میں مصروف رہے جب آپ عبادت میں مصروف تھے تو ایک جن آ کر آپ کو پریشان کرنے لگا اور آپ کی عباد ت میں خلل ڈالنے لگا ۔ جب وہ جن اپنی شرارتوں سے کسی صورت باز نہ آیا تو آپ نے اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے دعا کی تو وہ جن وہیں پتھر بن گیا یہ نشانی لوئے دندی کے مقام پر آج بھی موجود ہے اور ملک بھر سے ہزاروں لوگ حضرت امام ؒ کی یہ کرامت دیکھنے نور پور شاہاں جاتے ہیں اور اس مقام کی زیارت کرتے ہیں جہاں بیٹھ کر آپ عبادت کیا کرتے تھے ۔
امام سرکار ندی نیلاں میں جن دنوں آپ چلہ کشی کر رہے تھے اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے صرف دودھ پیا کرتے تھے گوجر قوم کا ایک عقیدت مند روزانہ آپ کو دودھ دینے آتا تھا جس بھینس کا دودھ وہ گوجر آپ کے پاس لاتا وہ مر جاتی تھی لیکن گوجر دُھن کا پکا تھا اپنی زبان سے یہ بات بری امام سرکار کو نہیں بتائی آخر کار ایک ایک کر کے تمام ختم ہوئیں تو اگلے روز دودھ کی خاطر تمام گاﺅں میں پھرا مگر ہر طرف سے مایوس ہوا چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی داستان سنائی ۔آپ مسکرائے اور فرمایا جاﺅ ندی کے کنارے چلتے جاﺅ اور اپنی بھینسوں کے نام پکارتے جاﺅ سب تمہارے پیچھے چلی آئی گی مگر خیال رکھنا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا چنانچہ اس گوجر نے ایسا ہی کیا جب آخری بھینس کا نام لیا جو کہ ندی سے نکل رہی تھی تو گوجر نے پیچھے موڑ کر دیکھ لیا بھینس اسی جگہ پتھر کی بن گئی ۔ گوجر پہلے تو پریشان ہوا مگر باقی بھینسوں کو دیکھ کر خوشی خوشی گھر چلا آیا ۔
ایک روز آپ ؒ نور پور شاہاں کے جنگل میں عبادت الہی میں مصروف تھے کہ ہندوﺅں کا ایک گرہ وسیع سازو سامان سے لدا پھندا آپ کے قریب سے گزرا آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے کہا ہم اپنے گناہوں کو دھونے کیلئے گنگا میں نہانے کیلئے جا رہے ہیں تو حضرت بری امام ؒ نے فرمایا کہ انسانوں کے گناہ دریاﺅ میں نہانے سے نہیں دھلتے بلکہ یہ گناہ عبادت الہی اور اعمال صالح سے جھڑتے ہیں اس پر ہندﺅں کے پنڈت نے کہا کہ اگر آپ کی بات درست ہوتی تو آپ جو یہاں سالہا سال سے عبادت الہی میں مصروف ہیں اس کا کچھ تو اثر ظاہر ہوتا کم از کم اتنا ہی ہو جاتا کہ جس درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ عبادت کر رہے ہیں وہی سر سبز و شاداب ہو جاتا تاکہ آپ سکون سے عبادت تو کر سکتے ۔ بارش دھوپ اور دوسری موسی سختیوں سے آپ عبادت کرتے ہوئے محفوظ رہتے ۔ اس پر حضرت بری امام ؒ نے فرمایا اس کے قبضہ قدرت میں تو سب کچھ ہے ہم نے اس سے کچھ مانگا ہی نہیں اس کے بعد آپ نے درخت کی طرف رخ کر کے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درخت سر سبز و شاداب ہوگیا ۔ ہندﺅوں نے جب یہ دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت سارا گروہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔
بری امام کا لفظی مطلب ہے زمین کا رہبر ۔ اور توریت میں حضرت علی کا ذکر ” بری ” کے نام سے ھے۔ اسی لییے آپ کے پیر و مرشد حضرت حیات المیر ؒ نے آپ کو جو لقب عطا کیا آپ کے دادا حضرت علؑی کے نام سے آپ اپنی ساری زندگی اس لقب کی عملی تفسیر بنے رہے ۔ جب حضرت بری امام ؒ نے باغ کلاں کے گاﺅں میں آ کر اقامت اختیار کی اس وقت پوٹھوہار کا پورا خطہ کفر و الحاظ اور جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا تھا مگر حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی بری امام ؒ نے اسے علاقے کو شرافت اور اسلام کی روشنی سے منور کردیا ۔ وہ گاﺅں جہاں حضرت بری امام نے مستقل رہائش اختیار کی چوروں اور ڈاکوﺅں کا گڑھ تھا اس لئے اس کا نام چور پور تھا مگر آپ نے جو اس گاﺅں پر نظر خاص کی تو یہ گاﺅں چور پور سے نور پور بن گیا ۔ یہاں کے ڈاکو اور چور جرائم سے تائب ہو کر شرافت کی زندگی گزار لگے ۔ اندھیروں کی جگہ روشنیوں نے لے لی اور چور پور کا ظلمت کدہ نور پور کے اجالوں سے منور ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ آپ کا مزار مبارک نور پور شاہاں شریف اسلام آباد میں عقیدت مندوں کیلئے مرجع خلائق ہے
بشکریہ سادات و فقرا دربار سخی شاہ محمود بادشاہ کاظمی المشہدی جنگی سیداں ” سنگت سخی شاہ معصوم بادشاہ سرکار جھنگی سیداں اسلام آباد
خصوصی نوٹ ” مرشد پاک کی راویات سینہ با سینہ کم و بیش الفاظ سے بیان ہوئیں اس لیے چند ایک میں میں تھوڑا بہت فرق اور قدرے اختلاف بھی پایا جاتا ہے جیسے اجڑے کھیت ہرے بھرے ہونے کی کرامت باغ کلاں سے بھی منسوب ہے مگر اس سے بھی معتبر راویت اسکو سرکار کے آبائی گھر کرسال سے بھی منسوب ہے کیونکہ اس کرامت سے منسوب نشانیاں کرسال میں ہی موجود ہیں اور جیسے سرکار کے مرشد پاک سرکار حیات المیر کا تذکرہ قرآن و حدیث اور اہل بیت اطہار سے چند ہستیوں کا تا قیامت زندہ ہونا ثابت ہے جیسے جناب حضر جو تمام عالمین کے قطبوں کے سردار ہیں وہ اور جناب الیاس بحر میں اب تک حیات ہیں اور جناب ادریس جنت میں اور حضرت عیسئ چوتھے آسمان پر زندہ اور حیات المیر مانے جاتے ہیں اسی طرح مرشد پاک کے حقیقی مرشد جو بحر و بر کے امام ہیں اس وقت موجود تمام خلق خدا کے امام ہیں ان کی جس کو معرفت نا ہو حدیث میں اسی کو جاہل کہا گیا
وہ امام زمانہ محمد المہدی علیہ السلام ہیں جو حیات المیر ہیں یعنی تا قیامت زندہ ہیں انکی ولادت 255 ہجری 15 شعبان کو عراق کے شہر سامرہ میں ہوئی آپ ہی بارھویں امام ہیں اور حضرت عیسئ و حضر انکی امامت کے گواہ ہیں