44

“حسیں ہاتھ کا کنگن”

حمیرا جمیل، سیالکوٹ
اُردو کے معروف شاعر وصی شاہ نے کنگن کی جس اہمیت سے عوام الناس کو روشناس کروایا ہے وہ سراہنے کے قابل ہے…… شاید ہی کسی شاعر کی شاعری میں کنگن کا لفظ اس قدر اہمیت کا حامل ہو…. پہلے پہل تو میں یہ سمجھ بیٹھی کہ یہ کنگن کسی خاص کاریگر نے بنایا. جو ایک کنگن کی تعریف میں پوری نظم لکھ ڈالی…

ہاتھ کی خوبصورتی کے علاوہ کنگن کو مرکزِ نگاہ بنایا گیا ہے. بے جان چیز کو توجہ کا مرکز بنا دینا گہری سوچ میں مبتلا کردیتا ہے.

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تُو بڑے پیار سے بڑے چاوْ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بےتابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

شاعر کے کلمات دل کو موہ لیتے ہیں کیونکہ جو کچھ وہ کہتا ہے یا کہنے کی کوشش کرتا ہے لازم نہیں وہ حقیقت ہوں. حقیقی دنیا سے خیالات کی دنیا کا رنگین سفر شاعرانہ بات چیت کے ذریعے ہی طے پاتا ہے. میری کنگن خریدنے کی خواہش حسرت بنتی چلی جارہی ہے. دراصل جس کنگن کی بات وصی شاہ اپنی نظم میں کررہے وہ کس طرح کا کنگن ہے؟ وہ بناوٹ کے اعتبار سے کیسا ہے؟ میں اُس کنگن کی تلاش میں ہوں.

تاکہ حسیں ہاتھ کو مزید چار چاند لگ سکیں. مگر ابھی تک حسرت بھری نگاہوں سے امید لگائے بیٹھی ہوں….. ہوسکتا ہے کہ وہ کنگن میری کلائی کی زنیت بن جائے . سوچتی ہوں کہ وصی شاہ سے دریافت کرنے کی کوشش کروں تاکہ جستجو کا مرحلہ آسان ہوسکے. پھر جو بات ذہن میں گردش کرتی ہے کہ ملاقات آسانی سے ہوجائے…. یہ بھی ناممکن ہے.میرے دل کی آرزو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.

صبح سے شام شام سے پھر رات تک کا وقت پرکشش اور نایاب کنگن کی یاد میں گزر جاتا ہے. سوچ کے دائرے میں جس کنگن کو میں قید کر چکی ہوں….. وہ کنگن گمنامی کا شکار ہے. بات کو طول دینے کے بجائے مختصر یہی کہہ سکتی ہوں کہ کوئی عزیز میرا یہ پیغام وصی شاہ تک پہنچا دے….تاکہ میری کچھ بے چینی ختم ہوسکے.
مجھے وہ وقت اچھی طرح سے یاد ہے جب یہ نظم ہر چھوٹے بڑے کو ازبر تھی.

وقت گزرتا گیا مگر اس نظم کی مقبولیت میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا گیا. عشق و محبت کی داستانیں یا آغازِ محبت کے اظہار میں جان ڈالنے کے لیے…… اس نظم کے اشعار نے صف اول کا کردار ادا کیا. نظم کے اشعار کو محبت کے وجود کی اہم کڑی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا. عاشقان محبت کے لیے وصی شاہ کی یہ خدمت ناقابل فراموش رہے گئی. صرف یہی ایک نظم نہیں بلکہ وصی شاہ کی تمام شاعری نوجوان نسل کے لیے پیامِ محبت ہے.

نوجوان طبقے کو خصوصی طور پر وصی شاہ کا شکرگزار ہونا چاہیے. کم ازکم کنگن کی وجہ سے صنف نازک کے حسن سے بخوبی آگاہ ہوسکے.

میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

خواتین کے بناؤ سنگھار اور خوبصورتی کو نکھارنے میں جھومر، ماتھا پٹھی، بالی، جھمکا، رانی ہار، چندن ہار، گلوبند، مالا، بازو بند، انگوٹھی اور پازیب جیسے زیوارت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. شاعری میں صنف نازک کے حسن کا چرچا نہ ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ حتی کہ خواتین کی تعریف میں یہی نہیں بلکہ شاعروں نے اپنے دیوان لکھ ڈالے ہیں.

خواتین کی چال ڈھال رنگ روپ دیکھ کر بادشاہ سے لے کر ہر شعبہ زندگی سے منسلک مرد ہوش و حواس گنوا دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں. آرزو ایک ہی ہے کہیں سے کسی مقام سے پنکھڑی جیسے ہونٹ ہرنی جیسی چال والی دو شیزہ دکھائی دے جائے. لطف اندوز ہونے کے لیے یہی بہت ہے…. بات تلخ ہے مگر سچائی پر مبنی ہے ایک عورت کے بعد دوسری عورت کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے.

شاید ہی سو فیصد میں سے دس فیصد مرد اپنی زندگی میں موجودہ عورت سے محبت یا عشق بھی کرتے ہوں. جس زندگی کے خواب دیکھتے ہیں یا جو توقعات رکھتے ہیں. وہ خواب زندہ رکھنے کے لیے رومانوی غزلیں یا نظمیں پڑھ لی جائیں……حالات سے مجبور تھکا ماندہ انسان صرف اس پر اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہے.
توجہ طلب موضوع وہی ہے “حسیں ہاتھ کا کنگن”…….ہاتھ کی خوبصورتی کنگن کے بغیر اور کنگن کی قدروقیمت ہاتھ کے بغیر ادھوری ہے. کبھی کبھار دیر ہوجاتی ہے…..

میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے. گذشتہ چند سال سے ارادہ باندھتی تھی ٹوٹ جاتا تھا. ارادہ مضبوط کرتے اور پورا کرتے…..اب طے کرلیا کہ ایک ہی نشست میں بیٹھ کر تحریر مکمل کی جائے خواہ کنگن تک رسائی ہو یا نہ ہو. تحریری صورت میں ہی دل کا کچھ بوجھ ہلکا کروں. بھاری بوجھ جو دل و دماغ پر سوار تھا اُس میں کمی تو آئی ہے پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں