حج کی سعادت سے محرومی کا ملال

عبدالجبارچوہدری/ایک وقت تھا جب حج کے لےے جانے والے کے گھر ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا کئی مہینے سفِر مبارک کی تیاری پر لگ جاتے تھے حج کے لئے جانے کے لےے زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کی جاتی تھی حج پر جانے والے کو گھر سے ائیرپورٹ تک بڑی بسوں کے قافلے کی صورت میں عزیز‘رشتہ دار‘گاﺅں اور برادری کے لوگ الوداع کرنے جاتے تھے۔ حج پر جانے والے کی قسمت پر ہر ایک کو رشک آتا تھا حج پر جانے والے کے ہاتھ اور پاﺅں چومے جاتے تھے اس کے سامان کے ساتھ وارفتگی کے ساتھ لوگ لپٹ جاتے تھے حج کے لئے جانے والے کو تحفے لانے کی لسٹیں نہیں بلکہ دعاﺅں کی عرضیاں پیش کی جاتی تھی حج کے لئے جانے والے کی اپنی کفیت ماہی بے آب کی طرح ہوتی تھی ‘آنکھیں آنسو سے تر‘حسرت و خوشی کے جذبات چہرے کو بہت پر رونق بنائے ہوئے ہوتے تھے۔ ہر ایک شے حق بخشواکر‘ ہر ناراض سے معافی مانگ کر ،دل کو کدورت ‘نفرت‘حسد سے خالی کر کے دماغ سے لالچ اور ظلم کے منصوبوں کو جھٹک کر بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کے لےے کئی کئی گاﺅں سے ایک ہی حج کے لئے جانے والا ہوتا تھا۔ واپس آنے کی تاریخ کا ہر ایک کو انتظار ہوتا تھا اتنا شاندار استقبال کےا جاتا تھا پھولوں کے ہاروں سے لاد دےا جاتا تھا حاجی کو اپنی قسمت پہ ناز آتا تھا چالیس دن تک دعاﺅں کی قبولیت کے وعدے کی وجہ سے ہر ایک کے لےے ہاتھ اٹھاتے ، اپنی تمناوں کی تکمےل کے لئے حاجی سے دُعا کے لےے جوق در جوق لوگ حاجی کے گھر آتے زم زم اور کھجورو ں سے والہانہ عقےدت سے سنبھالتے ۔ عمررسےدہ حاجی اتنی شفقت سے پےش آتے کہ مدتوں ان کے ہاتھوں کی لمس اور جذبات کی کسک لوگوں کو بے تاب رکھتی
وقت بدلا حالات بدلے مزاج بدلے‘معاشی خوشحالی کے آنے سے حج پر جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘ 2020
ایسا سال آیا جب غیر ملکیوں کے لےے حج موقوف ہوا حسرتیں اُمیدیں© تمنائیں دعائیں دل میں ہی رہیں حج کے اخراجات جمع کرانے کے باوجود حج پر جانے سے تمام اسلامی ممالک بشمول پاکستان کے لوگ عظےم سعادت سے محروم رہے۔ لاک ڈاﺅن نے جہاں ہمیں زندگی کے مثبت پہلوﺅں پر سوچنے پر مجبور کیا وہاں حج کی نیت اور استطاعت رکھنے کے باوجود حج سے محروم رہ جانے پر بھی سوچنا ضروری ہے حج سے محروم رہ جانے والے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں حج کےلئے جمع واجبات کی واپسی کے لےے جب بنک آتے ہیں ریزگاری ہاتھ میں لیتے ہی بوجھل قدموں سے کاﺅنٹر چھوڑتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے استطاعت کے باوجود حج پر جانے سے محروم رہ جانے والے لاکھوں کڑووں مسلمانوں کو سوچنا پڑے گا
جب صلح حدیبہ ہوا تو ہمارے پیارے نبی ﷺ کو کعبتہ اللہ کی زیارت اور مناسک حج ادانہ کر سکنے کا بہت ملال تھا۔
صحابہ کرام ؓبھی حزن رنج ملال کی کےفیت میں تھے جب نبی اکرم ﷺ نے مثردہ سنایا کہ ہم آئندہ حج کرنے آئیں گے تو پھرکےفےات تبدےل ہوئےں۔ فتح مکہ کے وقت صحابہ کرام ؓ کو جہاں اسلام کی سربلندی فتح مبین کی خوشی تھی اس کے ساتھ ساتھ کعبتہ اللہ کی زیارت اور مناسک حج کی آزادانہ ادائیگی کی بھی خوشی تھی۔
عالم اسلام کے سربراہان کو مل بیٹھ کر اس مسئلے پر مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے اسے مذہبی فریضہ کو صرف سعودی عرب کے فیصلے کے ماتحت
نہ چھوڑا جائے بلکہ تمام اسلامی دُنیا مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے حج کو موقوف کرنے سے پہلے عالم اسلام کے تمام ممالک سے رائے ضرور لی جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں