حجاز سے سعودی عرب تک

بارہویں صدی ہجری تک نجد کا علاقہ متعدد چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں میں منقسم تھا بظاہر یہ سارا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا لیکن عملاً یہاں پر سلطنت عثمانیہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ان تمام ریاستوں کا حاکم موروثی طریقے پر منتخب ہوتا تھا ان میں سے ہر ریاست دوسری سے بالکل آزاد اور خود مختار تھی ریاست عیینہ خاندانِ معمر کے زیر اقتدار تھی غالباً یہ اس علاقے کا سب سے طاقتور قبیلہ اور ریاست تھی اسی طرح ریاست درعیہ آل سعود کے زیر اقتدار اور ریاض کا علاقہ آل دواس کے زیر تسلط تھا ”حائل” آل علی کے ما تحت ”قصیم” ”الحجیلان ”خاندان کے اور ”شمالی نجد ” شبیب خاندان کے زیر اقتدار تھا بدقسمتی سے یہ مختلف ریاستیں اکثر اوقات سنگین باہمی تنازعات میں دست وگربیان رہتی تھیں ہمارے موضوع سے متعلقہ دو ریاستیں درعیہ اور عیینہ ہیں کیونکہ ان دو ریاستوں میں سے ایک ریاست عیینہ کے قاضی کے بیٹے اور دوسری ریاست درعیہ کے حاکم محمد بن سعود اور بعد ازاں ان کی اولاد نے مل کر بڑی طویل جد وجہد کی جس کے نتیجہ میں موجودہ سعودی عرب کا ملک وجود میں آیا محمد بن عبدالوھاب ’یہ وہی محمد بن عبد الوھاب ہیں جن کو عرف عام میں نجدی کہا جاتا ہے اور جن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایک نیا گروہ وہابیہ یا نجدیہ نے جنم لیا‘شہر عیینہ میں 1115ھ بمطابق 1703ء یا 1704ء میں قبیلہ بنو تمیم کے خاندان میں پیدا ہوئے دسویں صدی ہجری سے ہی یہ خاندان علماء کے حوالے سے معروف ومشہور تھا گیارہویں صدی ہجری میں محمد بن عبد الوہاب کے دادا سلیمان بن علی غالباً ”نجد” کے علاقے کے سب سے بڑے عالم تھے وہ ”عیینہ” شہر کے قاضی تھے اور اس علاقے کے علماء کے مابین جب فقہی مسائل میں اختلاف ہوتا تو لوگ انہی کی طرف رجوع کرتے تھے محمد کے والد عبدالوہاب بھی شہر ”عیینہ” کے عالم اور قاضی رہے وہ فقہ کے علم میں ماہر تھے انہوں نے فقہ کے مختلف مسائل پر کچھ کتابیں بھی لکھیں آپ کے والد ”عیینہ” سے ”حریملا” ہجرت کر گے تھے جب آپ کے والد کا انتقال ہوا اس وقت آپ کی عمر اڑتیس سال تھی ”حریملا” میں آپ نے کھلم کھلا دعوتی کام کی شروعات کی لیکن کچھ ہی مدت بعد آپ کے خلاف سازشیں ہونے لگیں جن کی بنا پر محمد بن عبد الوھاب نجدی نے عیینہ منتقل ہوجانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہاں کا امیر آپ کا معتقد ہو گیا تھا کچھ عرصہ بعد امیر عثمان نے سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا اور محمد بن عبدالوھاب سے کہا کہ وہ آپ کو مزید تحفظ فراہم نہیں کر سکتا تاہم یہ عربوں کی روایات کے خلاف تھا کہ اپنے تحفظ میں رکھتے ہوئے آپ کو وہ قتل کروا دیتا لہذا اس نے آپ کو شہر چھوڑ دینے کا حکم دیا چنانچہ آپ نے1157ھ میں درعیہ کو ہجرت کی جس کے نتیجہ میں امیر درعیہ محمد بن سعود(آل سعود) کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا’حکومت آپ کی نظریات ہمارے اسی لیے سعودیہ میں تقریباً مفتی اعظم کا منصب آل شیخ کے پاس ہی رہا آل شیخ محمد بن عبد الوھاب نجدی کی اولاد کو کہتے ہیں‘ جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں آل سعود کا تعلق عشیری مقرن کے قبیلہ عَنَزَہ یا عُنَیْزَہ سے تھا جو نجد اور اس کے اطراف مثلاً قطیف اور احساء میں رہتے تھے اس طرح آل مقرن یا قبیلہ عنیزہ نے اپنے لئے ایک مختصر سی حکومت بنا لی اس ابتدائی ریاست کا نام درعیہ تھا جو موجودہ ریاض کا ایک مضافاتی علاقہ تھا جو تقریباً ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور تقریباً پچہتر خاندان اس میں آباد تھے اس ریاست کو علاقہ میں کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں تھی آل سعود کی حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے دور اول محمد بن سعود کی حکومت کے آغاز سے مصریوں کے حملہ تک (1818ء) تک اس وقت درعیہ شہر دار السلطنت تھا (دور ثانی) ترکی اور فیصل آل سعود کے
زمانہ سے یعنی1820 یا 1823 سے 1891 تک ان کی حکومت رہی اس وقت حکومت کا مرکز ریاض تھا (دورثالث) 15جنوری 1902 سے تاحال جیسا کہ پہلے بھی ذکرہو چکا ہے ریاست درعیہ پہلے سے موجود تھی لیکن اس کی بنیاد 1745 ء میں محمد بن عبد الوھاب نجدی اور امیر درعیہ کے درمیان معاہدہ کے ساتھ نئے سرے سے رکھی گئی جس کا بنیادی مقصد شیخ نجدی کی تعلیمات عقائد و نظریات کو پوری قوت سے نافذ کرنا تھا ان کے نظریات انتہائی سخت گیر، بے لچک اور بے رحم اور اختلاف رائے سے خالی تھے پھر ہوا بھی یوں ہی کہ جس نے بھی ان سے اختلاف کیا اس کا سر تن سے جداہو گیا آسمان نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہزاروں کلمہ گو مسلمانوں کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ ان کی تعلیمات کے منکر تھے البتہ ان دونوں نے مل کر بڑی سرعت کے ساتھ قریبی علاقوں کو فتح کیا اور اپنی ریاست کی حدود کو پھیلاتے چلے گے حتیٰ کہ شام اور مصر کی حدود تک پہنچ گے سلطنت عثمانیہ کے سلطان نے مصر کے امیر محمد علی پاشا کو ان سے نبردآزما ہونے کا حکم دیا اس کے بیٹے ابراہیم پاشا نے1818 میں امیر عبداللہ بن سعود کو شکست فاش دے کر گرفتار کر لیا اس طرح ان کا پہلا دور انجام کو پہنچا کچھ عرصہ بعد امیر ترکی اور اس کے بیٹے فیصل نے اپنے حامیوں کو اکٹھاکرنا شروع کیا اور 1834 میں دوبارہ سلطنت کی بنیاد رکھی یہ دور زیادہ تر آل سعود کے آپسی اختلاف میں ہی الجھا رہا آخر کار محمد بن عبداللہ آل رشید جو حائل کا امیر تھا نے امیر عبدالرحمن آل سعود کو شکست فاش سے دو چار کر کے آل سعود کی حکومت کا خاتمہ کر دیا امیر عبدالرحمن کو کویت میں پناہ لینا پڑی پھر 1902 کو عبدالرحمن کے بیٹے عبدالعزیز نے موجودہ سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور 8جنوری 1926 کو سلطنت سعودی عرب کے قیام کا اعلان کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں