حبیب الرحمان قریشی کی صحافتی خدمات

اہل دانش اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے میں میڈیا کا کردارایک مسلم حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتابلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ دور میں میڈیا کے کردار کے بغیر حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بے جانہ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں رونما ہونے والے واقعات کو چند ہی منٹوں میں نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ دیکھ بھی سکتے ہیں۔الیکڑانک میڈیا کی ترقی اپنی جگہ مگر پرنٹ میڈیا اور بالخصوص اخبار کی اہمیت کوآج بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔انسان بنیادی طور پر ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے کو اپنی زندگی کا بنیادی جزو سمجھتا ہے۔اس سارے پراسس میں ایک صحافی کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے۔

ان ہی کرداروں میں سے ایک کردار علاقائی صحافت کادرخشاں ستارہ حبیب الرحمن قریشی تھا۔جو تحصیل کلر سیداں کے علاقے سر صوبہ شاہ کی نواحی بستی ڈھوک صوفی محمد صادق میں مہربان خان کے گھرمارچ1968میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل پرتوجہ دلاناآپ کی سرشست میں شامل تھا۔خدمت خلق کے جذبے نے انگڑائی لی تو صحافت کو بطور پیشہ اپنا فرائض منصبی جان کر اختیار کیا۔

آپ نے اس وقت صحافت کو اپنایا جب علاقے میں الیکڑانک میڈیا تو دور پرنٹ میڈیا بھی برائے نام تھی۔تحصیل کلر سیداں کے چند گنے چنے صحافیوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔آپ تقریباًتیس سال سے زائد کا عرصہ شعبہ صحافت سے منسلک رہے۔جہاں زندگی کے نشیب و فرازاور مدوجزر کا باخوبی مقابلہ کیا۔مالی مشکلات کے باوجود حالات کی سنگینیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔اس عرصہ میں آپ رو ز نا مہ اساس،روزنامہ جنگ،جیو گروپ، ہفت روزہ اذکار،افق پوٹھوہار،پنڈی پوسٹ کے علاوہ پوٹھوہار ڈاٹ کام،سحر نیوز اور بے شمار ویب چینل کے ساتھ منسلک رہے۔

ا ٓپ گزشتہ کچھ عرصہ سے پریس کلب چوآخالصہ کے صدر بھی تھے۔شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کو بزرگ صحافی کے ساتھ ساتھ علاقائی صحافت میں بہت ہی معتبر سمجھا جاتا تھا۔آپ نے بے شمار سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کے انٹرویو بھی کیے۔آپ گزشتہ کچھ عرصہ سے متعدد امراض میں مبتلا تھے اس کے باوجوداپنے علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے سے غافل نہ تھے

آپ نے اچھوتی صحافت سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کی۔ علاقائی صحافت کا یہ درخشاں ستارہ بلآخر 17جنوری 2024بروز بدھ کو حرکت قلب بند ہونے سے اپنی کرنیں سمیٹ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔آپ کی موت کی خبر علاقے میں بالخصوص علاقائی صحافت پر بجلی بن کر گری۔ جس نے ہر مہکتی نوخیز صحافتی کلیوں کو مرجھا کر رکھ دیا۔

آپ کا جسد خاکی راولپنڈی سے گھر پہنچا تو کہرام مچ گیا۔ہر آنکھ اشک بار اور ہر ہرچہرہ شبنم فشار تھا۔اہل علاقہ پہ گویاشام غریباں برباد ہے۔آپ کا جنازہ ہزاروں لوگوں کی آہوں اور سسکیوں میں علاقے کی روحانی شخصیت حاجی محمد شریف صاحب کی امامت میں پڑھا گیا۔جس میں سیاسی سماجی مذہبی شخصیات کے علاوہ تمام مکاتب فکرکے لوگوں نے شرکت کی۔ علاقائی صحافت کا دمکتا ستارہ خو د تو غروب ہوگیا مگر اپنی صحافتی خدمات کوآنے والوں کے لیے مشعل راہ بنادیا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں