حالات حاضرہ اور مسلمان کا کردار

پروفیسر محمد حسین/آج دنیا بھر کے مسلمان بڑی تیز رفتاری سے انتہائی تباہ کن حالات کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔اور اٹھاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ملت اسلامیہ کو ممکنہ تباہی سے بچا نے کے لئے اسلام دشمنوں کے خلاف کھڑا ہونے کی جراٗت کرے۔ اس لئے کہ ہر کوئی اپنا اقتدار بچانے کے لئے یا تو یہود ونصاریٰ کا وفادارہے یا پھر روسی دہریوں پر اس کے اقتدار کا انحصار ہے۔ اس لئے دو ارب کے قریب افراد اور قدرتی وسائل کی بھرمار کے باوجود مسلمان اس قدر خستہ حال ہیں کہ اپنے نظریات کی حفاظت تو دور کی بات اپنی جان کی امان سے بھی بیزار ہیں۔فلسطینی اور کشمیری تو طویل عرصہ سے یہود وہنودکے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔آج کمزور سے ملک برما میں بھی ان بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کے ہاتھوں قتل کئے جارہے ہیں جن کی تعلیمات میں مکھی مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔یعنی مسلمان ان کے ہاں گویا مکھی‘ مچھر سے بھی زیادہ حقیر ہیں۔بلکہ کفار کی نظروں میں بحیثیت انسان بھی اس قدر بے توقیر ہیں کہ کرہ ارض پر ان کا وجود سر عام نا قابل برداشت کہا جا رہا ہے۔اور آج اسلامی دنیا کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ جس طرح ہم نے ماضی قریب میں کیمونزم اور سوشلزم کا خاتمہ کیا اس طرح نظریہ اسلام بھی ختم کریں گے اسی لئے آج کہیں کسی غیرمسلم ملک میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا جا رہا ہے اور کہیں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔کفارمیں اس قدر نفرت انگیز جذبات کی بڑی وجہ یہودی کنٹرولڈ الیکٹرانک میڈیا پر وہ پروپیگنڈہ ہے جس کا آغاز 9/11کے اس واقعہ سے ہوا جو صیہونی دماغ نے اختراع کیا۔خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے نیو یارک شہر میں کچھ عمارتیں گرانے سے اس کا افتتاح کیا القاعدہ نامی تنظیم کے کھاتے میں ڈال کر اسے دہشت گردی کا نام دیا اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو ڈرادھمکا کر اپنا ہمنوااور مددگار بنایا غربت و جہالت میں مبتلا مسلمانوں کو روپے پیسے کے لالچ میں ڈال کر پہلے دہشت گرد بنایا اور پھر میڈیا پر ان کی وحشانہ سرگرمیاں دکھا کر اسلامی نظریات کا مذاق اڑایا سوچنے کی بات ہے کہ دین اسلام کی حقانیت قدرتی وسائل کی افراط اور دو ارب کے قریب افرادی قوت کے ساتھ مسلمان عوام کیوں ذلیل و رسواہو رہے ہیں تو اس کا اہم ترین جواب یہ ہے کہ مسلمان عوام نے بالعموم اور اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے بالخصوص حضوراقدس ؐکی اس ہدایت پر غور نہ کیا جو خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ ؐنے مسلمان کو بطور خاص فرمائی یعنی یہ کہ ”لوگو میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اس کو مضبوط پکڑ لو گے تو گمراہ نہ ہو گے اور وہ چیز اللہ کی کتاب ہے“حکمران ہی تو اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کے مطابق قوانین بنانے اور ان پر عمل کرانے کے ذمہ دار ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں اقتدار بخشیں زمین میں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃدیتے ہیں اور نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں“ یعنی اللہ نے ایک ہی آیت میں حکمرانوں کے لئے مطلوبہ ایمان و اعمال کا مکمل احاطہ کر دیا۔ چنانچہ مسلمان نامی حکمران اگر ذاتی طور پر نمازی نہیں تو اس میں منافقت کو واضح علامات موجود ہیں۔زکوٰۃکا نظام نافذنہیں کرتا تو ریاست کے معاشی نظام کو سخت خطرات ہیں اور امربالمعروف ونہی المنکر میں غفلت کا ارتکاب کرتا ہے تو معاشرے میں اخلاقی اقدار کی تباہی کے خدشات ہیں تاریخ گواہ ہے کہ خلفائے راشدین نے اس قرآنی حکم کے مطابق عمل کیا تو اسلامی ریاست اس قدر طاقتور ہو گئی کہ اس وقت کی دو سپر طاقتوں کو شکست فاش دینے میں کامیاب رہی لیکن جیسے ہی حکمران قرآن وسنت سے غافل ہوئے بحیثیت ملت کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔حتیٰ کہ آج مسلمان کو یہ دن بھی دیکھنے پڑ گئے کہ برما جیسے ملک میں بھی انتہائی سفاکی سے قتل کئے جا رہے ہیں۔آج کی اسلامی دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا حکمران ملے جو خلفائے راشدین جیسے تقویٰ کے عشر عشیر ہی مظاہرہ کرے بلکہ اب تو اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کے مقتدرایوانوں میں ایسے بدعنوان سیاستدان باآسانی و بکثرت پہنچ جاتے ہیں جن کی لوٹ مار کے قصے پوری دنیا میں سنے جا رہے ہیں۔خلافت اور آج کے نام نہاد جمہوری سیاست کا فرق ملاحظہ کیجئے کہ بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلی اسلامی ریاست کے حکمران سے لباس میں شامل دو معمولی چادریں کا سوال ہوا تو خلیفہ نے برہم ہونے کے بجائے اپنے بیٹے کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیا۔جبکہ غیر اسلامی طرز انتخاب سے منتخب پاکستانی حکمران سے سیکڑوں ارب روپے غیر قانونی طریقے سے بیرونی ملک منتقل کرنے کا سوال ہوا تو جواب میں تاریخی جملہ کہا کہ تمیں کیا؟یعنی کہاں آج وہ حکمران جو معمولی انتظامی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کے عدل سے ڈریں اور کہاں آج کی مسلم دنیا کے حکمران جو یوم آخرت کا خوف تو درکنار دنیاوی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی کی ذرہ پرواہ نہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں