ایک قاضی صاحب نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کیلئے انکے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا۔ایک شخص کے گھر مہمان آئے۔اس نے انکی خاطر مدارات کیلئے اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا، تاکہ مہمانوں کیلئے کھیر بنائی جا سکے۔
ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے آ رہا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گزری جسکے پنجوں میں سانپ تھا۔ سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلے جو دودھ میں جا گرے مہمانوں نے اس دودھ سے بنی کھیر کھائی تو سب ہلاک ہو گئے۔اب اسکا قصور وار کون ہے؟پہلے نے لکھا یہ غلطی ملازم کی ہے اسے برتن ڈھانپنا چاہیے تھا۔قاضی صاحب نے کہا: یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیے تھا،لیکن یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔دوسرے نے لکھا: اصل جرم گھر کے مالک کا ہے۔اسے پہلے خود کھیر چکھنی چاہیے۔قاضی صاحب نے یہ جواز بھی مسترد کر دیا۔
تیسرے نے کہا: پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سارا منظر کس نے دیکھا کہ چیل کے پنجوں میں سانپ ہے؟ اگر اس منظر کا گواہ ملازم ہے تو وہ مجرم ہے۔اگر گواہ مالک ہے تو وہ مجرم ہے اور اگر کوئی گواہ نہیں تو جس نے یہ کہانی گھڑی ہے؟وہ قاتل ہے۔قاضی صاحب نے اپنے چوتھے شاگرد کو شاباش دی اور صرف اسے قاضی کے منصب کا اہل قرار دیا۔