حاجی مظہر حسین کی رحلت/ عبدالجبار

آج سے 25سال قبل چوک پنڈوڑی میں بڑی جامع مسجد کا قیام اور اس کا دینی مرکز کا حامل ہونا علاقہ کے ہرشخص کی خواہش تھی جس کا اظہار بھی کیا جاتا تھا 1990 ؁ء میں ایک بھرپور دینی جذبہ رکھنے والی شخصیت حاجی مظہر حسین جن کا تعلق چوک پنڈوڑی کے

نواحی گاؤں موہڑہ حیال سے تھا نے چوہان ٹینٹ سروس کے نام سے بازار میں کاروبار کا آغاز کیا دینی شغف کی وجہ سے نماز با جماعت ادا کرنا معمول تھا۔ حاجی مظہر حسین بلند آہنگ موذن تھے جب صبح کی اذان اپنے مخصوص انداز اور دل کو کھینچ لینے والی آواز میں دیتے تو بہت سی آنکھیں اس نغمہ سرمدی سے چھلک پڑتی تھیں “الصلوہ خیر مّن النّوم “کی صدا بہت سے لوگوں کو ربّ کے حضور پیش ہونے پر کمر بستہ کر دیتی۔ اذان کی ادائیگی کی ذمہ داری کئی عشروں تک نبھاتے رہے زندہ پیر گمکھول شریف کے حلقہء ارادت میں شامل ہوئے تو کلمہ شریف کا ذکر صبح کی اذان کے بعد خالصتاََ در بارِ عالیہ گمھکول شریف کی طرز پر ادا کرتے تو انسان ، چرند،پرند سب محو ہو جاتے۔ دینی مرکز کا قیام اور اس کی آبیاری آپ کا ہمیشہ سے خواب تھا۔ اس کی خاطر بابا شہید پیر کے مقام پر کلرسیداں کی معروف درسگاہ موہڑہ پھڈیال کے مہتمم حافظ عبداللہ صاحب کی معیت میں شعبہ حفظ القرآن کا اجراء فرمایا چندسالوں کے بعد بعض ناگزیروجوہات کی بنا ء پر اس درسگاہ کا غیر فعال ہونا ان کے لیے بڑھے دھچکے کا سبب بنا مگر دھن کے پکیّ حاجی مظہر حسین صاحب نے اپنے بیٹوں کو حافظِ قرآن بنا کر اس خواب کی تکمیل کی جانب سفر جاری رکھا بڑے بیٹے حافظ نذر صاحب اور حافظ محمد سلیم شہید نے قرآن پاک حفظ کر کے اپنے والدِ گرامی کو انتہائی مسرور کیا۔ حافظ محمد سلیم کو دارلعلوم محمد یہ غوثیہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا(درس نظامی کے لیے بھیجا مگر ایک سال بعد حافظ محمد سلیم ایک قریبی نہر میں ڈونبے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔ حاجی مظہر حسین سے جوان بیٹے کی موت کے صدمہ کو جس خندہ پیشانی سے قبول کیا مجھے آج بھی آپ کو بیٹے کی میت پہ “لے او یار حوالے ربّ دے” کی صدا دیتے حاجی صاحب کبھی نہیں بھولتے۔ اس کے باوجوداپنے سفر کو جانفشانی سے شروع رکھا اپنے دونون چھوٹے بیٹوں حافظ محمد طیب اور حافظ محمد زکرّیا کو حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال ہونے کا موقع دیا اور آج آپ کے یہ تینوں بیٹے امامت اور قرات کے ذریعے مخلوقِ خدا کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ پرا نی جامع مسجد میں جگہ کم اور عمارت کی حالت خستہ ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو بے پناہ تکالیف کا سامنا تھاساتھ ایک کنواں بھی تھاجہاں ہر وقت پانی بھرنے والوں کا ہجوم بھی رہتا تھا جامع مسجد کی تعمیر کے لیے ایک ٹیم بنی جسے بعد ازاں مسجد کمیٹی چوک پنڈوڑی کا نام دیا گیا ان میں حاجی مظہر حسین ، حاجی نصیر مرحوم ودیگر تھے۔ جنہوں نے پرانی جامع مسجد کی جگہ چند سالوں میں عظیم الشا ن دو منزلہ جامع مسجد کی تعمیرممکن بنا دی زمین کے تنازعات ، مقدمات اپنے پرائے کی طرف سے تیروں کے نشتر، زبان کی تلواروں کے وار سہنے کے باوجو مسجد میں نئی آب و تاب کے ساتھ جمعتہ المبارک کا خطبہ شروع کرا دیا پڑھے لکھے باقاعدہ سند یافتہ خطیب کا مطالبہ بھی پورا کرنا تھا اس کے لیے معروف روحانی درگاہ آستانہ عالیہ بھنگالی شریف کے فیض یافتہ حضرت علامہ قاضی شفیق الرحمّن صاحب فاضل جامعہ محمدیہ بھیرہ شریف کا انتخاب کیا اور آپ نے خطابت کی ذمہ داری اس وقت تک نبھائی جب تک کہ جمعتہ المبارک کا اجتماع کئی ہزار لوگوں تک نہ جاپہنچا اس دورانیے میں چوک پنڈوڑی بازار میں موجود تالاب کی جگہ مسجد کو الاٹ ہوگئی اتنی بڑی جگہ پر مسجد کی تعمیر ایک چیلنج تھا جسے حاجی مظہر صاحب اور ان کے رفقاء نے قبول کیا مجھے اچھی طرح یاد ہے اس جگہ پر پہلاجمعہ کھلے آسمان تلے ہم سب نے اگھٹے ادا کیا ، کسی بڑے ادارے کی طرف سے مدد نہ ملنے کے باوجود مقامی لوگوں،تاجروں اور مخیرحضرات کے تعاون سے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھ دیا تعمیر شروع ہو گئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک شاندار جامع مسجد”گلزارِ حیبب”کے نام سے تیار ہو گئی جو علاقہ کی منفرد اور بڑی اکلوتی مسجد کا مقام رکھتی ہے اس مسجد کے ساتھ دینی درسگاہ کا قیام بھی وقت کی اوّلین ضرورت تھی شعبہ حفظ القرآن کا اجراء اور 2016 ؁ء میں درسِ نظامی کے کورس کا اجراء کرکے دینی مرکز کا خواب پورا کردیا چوک پنڈوڑی کی مسجد کی تعمیر وترقی اور علاقہ کی دینی درسگاہوں کے قیام کی جب بھی تاریخ لکھی یا بیان کی جائیگی تو حاجی مظہرحسین کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا آپ کا تعلق سوادِ اعظم اہلسنت والجماعت سے تھا اپنے آپ کو گروہی لسانی اور مسلکی کشمکش سے دور رکھتے ہوئے آپ نے اپنی جدوجہد اور عمل سے ثابت کیا کہ یقین محکم ہو تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں گذشتہ چند برسوں سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے آپ کا انتقال مورخہ 3جنوری2017 ؁ء بمطابق 4 ربیع الثانی1438ہجری کو ہوا۔ جسدِ خاکی کوموہڑہ حیال کے قبرستان میں بیٹے حافظ محمدسلیم شہید کے پہلو میں دفن کیا گیا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں