جی۔20 سمٹ‘پاکستان کو دنیا کے بڑے معاملات میں غیر متعلق ہو نے کا پیغام

ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں دنیا کے بیس طاقتور ترین ممالک کی تین روزبیٹھک ہوئی ہے جس کا نام جی۔20 سمٹ ہے اور اس میں دنیا بھر سے تقریباتیس سر براہان مملکت اور پندرہ مختلف تنظیموں کے سر براہا ن نے شرکت کی جن میں نمایاں طور پر امریکہ کے صدر جو با ئیڈن، برطانوی وزیر اعظم رشی سناک، سعودی کراؤن پر نس محمد بن سلمان، کینڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو صدد رجب طیب اردگان اور جاپانی وزیراعظم فو میوکیشیدا خصوصی طور پر شامل ہوئے جبکہ چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر میر پوتن اس اہم اجلاس میں شامل نہیں ہوئے بلکہ چین کی جانب سے چینی وزیر اعظم لی چیا نگ جبکہ روس کو روسی وزیراعظم خارمہ سیر جی لاوروف کی نمائندگی حاصل ہوگئی جہاں تک روسی اور چینی سربراہان کے شرکت نہ کرنیکی بات ہے

columns

تو اس کی وجہ یوکر ائن جنگ ہے اس جنگ کی وجہ سے پوٹن دنیا کے طاقتو ر ملکوں کے خلاف سفارتی محاذ پر لڑرہے ہیں اور انہوں نے جی۔20 ممالک کو یوکرائن جنگ کے حوالے سے فیصلہ کن پیغا م دینے کے لئے اس میں شر کت نہیں کی ہے جبکہ چینی صدر کے شرکت نہ کر نے کی وجہ امریکہ کا ہندوستان کے ساتھ مل کر خطے میں اثرور سوخ بڑھانا اور نیچاد کھانے کی کو شش کر نا ہے دہلی میں جہاں 80 صفحات پر مشتمل ایک مشتر کہ بیان جی۔20 ممالک کی جانب سے جاری کیا گیا وہیں بالواسطہ اور واضح طور پر پاکستا ن کو دنیا کے بڑے معاملات میں غیر متعلق ہو نے کا پیغام دے دیا گیا ہے بلکہ دہشت گردی کی معاونت کے طور پر پاکستا ن کو نشانہ بنایا گیا ہے علاوہ ازیں پاکستان چین کی مدد کے ساتھ جس سی پیک اور بی آرآئی کو خطے بن گیم چینجر اور بازی پلٹ ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا دہلی میں سعودی کراؤن کرنس محمد بن سلمان اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی نے امریکہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور یورپی یو نین کے تعارف سے ایک نئی کو ریڈور یعنی مو اصلاتی سڑک بنانے کااعلان کیا ہے

جو ہندو ستان کو نا صرف سعودی عرب متحدہ عرب امارات بلکہ ترکی اسرائیل اور یورب سے بھی جوڑدے گی ہندوستان جس شاطرانہ انداز میں اس گلف انڈیا کو ایڈور کو یورپ تک لے گیا ہے یہ پاکستان میں بیٹھے پالیسی سازوں کے لیے انتہائی بڑا لمحہ فکریہ بھی ہے کہ اگر حکومتوں ا ور ان کی پالیسیوں کا تسلسل ہوتو دنیا بھی اُن کے ساتھ بڑے بڑے معاہد ے کر تی اوراعتما د بھی کرتی ہے ایک جانب یہ دہلی یورپ کو ریڈور بر استہ گلف اسرائیل دراٖصل امریکہ کی جانب سے چین کو پیغام ہے کہ وہ ہزاروں میل دور ہو کر بھی خطے میں چین کی اجارہ داری اور اثر و سوخ،بالا دستی قائم نہیں ہونے دے گا وہیں اس کو ریڈور کے نام پر گلف کے تمام ممالک کو ہندوستان اور ا سرائیل کے زیر اثر لانے کی مکمل تیاری کر چکا ہے پاکستان تو کبھی اسلامی سربراہ کا نفرنس کروانے والا ملک تھا اور کئی عشروں تک مسلم دنیا کا غیر اعلانیہ سرپرست تھا

آج جس تنہائی اور بے وقعتی کا شکار ہے وہ تمام خارجہ امور میں بیٹھے افسران اور پالیسی سازوں کے لئے شرمندہ کا مقام ہے اگر سمجھ سکیں تو وہ یہ سب ہمارے مجموعی اعمالوں اور حکمرانوں کی ملک دشمنیوں کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور واضح عتاب ہے ایک جانب ہندوستان اپنی معاشی ترقی اور خوشحالی کی بنیادپر دنیا کو لیڈکر نے کا کر دار نبھارہا ہے اور کہیں چاند پر اپنے قدم رکھ کر سورج پر تحقیق کر نے والے ممالک میں بھی ہو گیا ہے جبکہ ہم نہ تو عید کے چاند پر متفق ہوپائے ہیں اور نہ معاشرے میں پھیلی سوچ کی تیش سے زیادہ ناانصافی کی تپش کا کچھ کر پائے ہیں جبکہ
صرف اپنے جھنڈے میں چاند دیکھ کر خو ش ہو تے ہیں بلاشبہ آنے والے دن پاکستان کے لئے مزید بحران اور مشکلات لاسکتے ہیں اگر نیک نیتی کے ساتھ انتہائی ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے۔بدقسمتی کی انتہاتو یہ ہے کہ ایک جانب سعودی عرب متحدہ عرب امارات ترکی جیسے بڑے اسلامی ممالک ہندوستان کی تعریفیں اور نریندرمودی سے گلے مل رہے ہیں وہیں ہمارا اپنا کٹا ہو ابازومشرقی پاکستان موجو دہ بنگلہ دیش کی وزیرعظم حسینہ وامد اپنے وزیرخارجہ سمیت شریک ہیں اور جس انداز میں بنگہ ریشی وزیر خارجہ باربار نرینددمودی کو اپنا وزیر اعظم کہہ رہے تھے اور مودی کی لیڈ رشید کے قصید ے پڑھ رہے تھے یہ ایک انتہائی تکلیف دہ تھا حقیقت تو یہ ہے کے ایک جانب پاکستا ن میں بد ترین معاشی بحران چل رہا ہے جس کی وجہ سے عوام اپنے بچوں سمیت خود کشیاں کر نے پر مجبور ہیں وہیں ملک دوبارہ دہشت گردی کے عفریت کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے

اندرونی طو ر پر ادار ے بشمول عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ قانو ن سازادارے انتظامیہ سب کمزور ہوتے جارہے ہیں جس کی بنیادی وجوہات ذاتی عناد، خودپرستی، مفاد پرستی،کرپشن، طاقت کا زعم،ضد،ہٹ دھرمی، اقرباپروری،انسانی حقوق کی پامالی اشرافیہ کی بد اعمالیاں اور بہت ساری بر ائیاں شامل ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں اور کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا آج لوگوں کا قانون اور عدالت سے اعتباد اٹھ گیا ہے اس سب صورتحال میں ایک جانب ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ا ور دوسری جانب پاکستان کی دشمن تما م طاقتیں ہیں اکھٹی ہوکر پاکستان کے نازک ترین دور سے فائدہ اُٹھا کر ملک کو ٹکرے ٹکرے کر نا چاہتی ہیں پاکستان کو دوبارہ ایف اے ٹی ایف میں شامل کرکے مزید معاشی پابندیوں کی بات کی جارہی ہے اور کہیں پاکستان سے جی ایس پی پلس درجہ واپس لینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور پاکستا ن کو معاشی طور لاغر اور اپاہج کر نے کا عالمی ایجنڈااپنے پورے زوروں پر ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے

کہ ہمارے حکمران کیوں آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اقتدار کے ایوانوں کو اندرونی اکھاڑپچھاڑسے اتنی بھی فر صت نہیں کہ یہ دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں کہ دشمن وطن عزیز کے ساتھ کیا کئے جا رہاہے کو ئی امید کی کر ن نظر نہیں آرہی ہے آج ایسا کیا ہوا ہے ہر طرف ما یوسی ہی مایوسی نظر آرہی ہے اب وقت آگیا ہے کہ ملک جس انتہا ئی دگر گو ں حالت کو پہنچ گیا ہے اور جس اندازمیں بحرانوں پر بحران کھڑے ہو رہے ملک کو بچانے کے لئے تمام ذاتی ا ختلافات،انا، عناداور خود پرستی سے بالا تر ہو کر ملک کی سلامتی اور بقاکے لئے سب محب وطن قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے سیاسی نظام کو مضبوط کیا جائے بلا شبہ اس مشکل ترین کام کے لئے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو ہی کیاآگے آنا پڑے گا اور سیا سی جماعتوں کی حقیقت اور طاقت کو تسلیم کر کے تمام طاقت کے مرا کزکے درمیان ایک نیا غیر اعلانیہ عمرانی معاہدہ تشکیل دینا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں