ایک حدیث میں رسول اللہؐنے ارشاد فرمایاکہ”جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے“یعنی جس قسم کے تم لوگ ہو گے اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے کیونکہ عوام اور حکمران دونوں کا سر چشمہ ایک ہی ہوتا ہے یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے ہمارا معاشرہ اگرچہ بحیثیت مجموعی بدعنوان نہیں لیکن اس منزل کی جانب گامزن ضرور ہے معاشرے کے ارکان افراض کے غلام ہو چکے ہیں لالچ‘حرص‘ بد عنوانی اور خورد برد کرپشن ہماری شناخت بن چکی ہے ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں یہ بات قطعی غلط اور لغو ہے کہ رشوت‘بدعنوانی اور ناجائز منافع‘نا جائز طریقے سے رقم کمانے کا تمام اہتمام بڑے بڑے سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو جاتا ہے یقینا سیاستدانوں اور سرکاری افسر ان میں سارے کے سارے نیک اور پرہیزگار نہیں لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ سارے کے سارے ہی پکے بد عنوان‘چور‘ خائن اور نا فرض شناس ہیں موجودہ دورحکومت کو دیکھ لیں بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا پہنچی دھاندلی‘دھاندلی کا شور ایک دم کرپشن‘کرپشن میں بدل گیا حکومتی ادارے شاید کرپشن کی کھوج تو نہ لگا سکے لیکن بین الاقوامی ایجنسیوں نے دنیا کے کرپٹ ترین حکمرانوں کو ضرور بے نقاب کر دیابات دھاندلی سے کسی دوسری طرف چلی گئی پھر کیا ہوا؟ہر آنے والا دن حکومت کیلئے نئے نئے مسائل لے کر آیاجن لوگوں نے مسلم لیگ(ن) کی حمایت کی وہ بھی ایک کرب سے گزرے ہیں ان کو کیا معلوم تھا کہ وہ جنہیں پارسا سمجھتے ہیں وہ کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اپوزیشن نے خوب واویلا کیا تب جا کر عدلیہ مداخلت پر مجبور ہوئی حکمران خاندان کے خلاف پانامہ آف شوزسے بات شروع ہوئی تھی مے فیئر‘لندن فلیٹس‘حدیبیہ ملز‘عزیزیہ ملز‘قرضہ اتارو ملک سنوارو‘میٹرو‘اورنج ٹرین‘منی لانڈرنگ پتہ نہیں یہ بات کہاں تک جائے گی بات‘بات پر قسمیں کھانے والا الحمداللہ بولنے والا یہ خاندان اتنا بڑا چور نکلے گا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا یہ قدرت کی طرف سے ہمارے اوپر مسلط ہوئے ہیں اگر ایوان میں بیٹھنے والے لوگ اس ملک اور اس کی عوا م کے ساتھ اتنے مخلص ہوتے تو عوام کے بنیادی حقوق بہت پہلے پورے ہو چکے ہوتے اس ملک کی عوام کو بنیادی سہولیات سے محرومی کا ماتم نہ کرنا پڑتا ہم سے کئی درجہ غریب ملکوں میں بھی عوام کو اس حوالے سے کسی قسم کا احساس محرومی نہیں ہے لیکن ہمارے صاحبان اقتدار خواہ وہ انتخابی طریقے سے منتخب ہوئے ہوں یا اپنی طاقت کے زور پر مسلط ہوئے ہوں سب نے برابر ہی اپنا اور اپنے خواص کا خیال رکھنے پر ہی آمین کی ہے لیکن ذراسوچئے صرف صاحبان اقتدار پر ہی سب الزام کیوں؟کیا عوام اسی تھالی سے نہیں کھا رہے جس میں سے ایوان اقتدار کے مکین کھا رہے ہیں؟کیونکہ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں یہ گوالے جو دودھ میں پانی ملاتے ہیں مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا‘اچھا مال دکھا کر برا بیچنا‘معمول کی کاروائی سمجھی جاتی ہے دروازے کے باہر گلی میں بلب یہ سوچ کر نہیں لگاتا کہ وہ حکومت کی ذمہ داری ہے گھر کو کوڑا محلے کے خالی پلاٹ میں پھینک کر صفائی نصف ایمان ہے کا نعرہ لگاتی ہے ملازمت میں کام کے بجائے وقت پورا کرنا ہی اپنی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اکثر اوقات تو وقت بھی پورا نہیں کیا جاتاگھر سے ہی حاضری لگا دینا کیا ایسی قوم کی بد دعا اثر رکھتی ہے؟ہم تو مجموعی طور پر گندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں ایسے میں کسے اچھا اور کسے برا کہا جائے مسجد سے جوتے چوری کرنے والے صاحبان اب ایوان میں سے تو آتے نہیں ہیں یا پھر وہ جو اندھیری رات میں بازاروں میں کھڑی ریڑھیوں میں مال نکال کر لے جاتے ہیں کیا وہ سینٹ کے ارکان ہیں؟یہ وہ ملک ہے جہاں تین
مرلے کے مکان کا تعمیراتی کام ہو رہا ہو تو رات جاتے وقت مالک سریے کو تالا لگا کر جاتا ہے کہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے اور دن میں سارا سارا دن مزدوری کے سر پر کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ڈنڈی نہ مار دیں اور پھر بھی اسے سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے کس مہارت سے اسے نقصان پہنچادیا گیا ہے بجلی تو بجلی کا سرکاری محکمہ ہے یہاں تو کیبل آپریٹرز پریشان رہتے ہیں کہ ان کی گہری نگرانی کے باوجود لوگ کیبل میں ٹانکہ لگائے بیٹھے ہیں یہاں نجی ادارے کے لوگ ہر روز کی مستقل نگہداشت کے باوجود چوری پر قابو نہ کر پائیں وہاں ایسے سرکاری ادارے کیا کریں گے جن کے اہلکار کام پر ہی شہنشاہوں کی طرح آتے ہیں اسی دیس میں لوگ ٹرین میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرتے ہیں اور پھر ریلوے کو ہی گالیاں دیتے ہیں شاید انہیں ریل کا سفر بغیر ٹکٹ کرنا تو اپنا حق لگتا ہے لیکن اس بغیر ٹکٹ کے سفر سے ریلوے پر پڑنے والا بوجھ اور اس کا نقصان ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتاریلوے کی کتنی ہی اراضی ہے جس پر عوام قبضہ کئے ہوئے ہیں کہیں مارکیٹیں بنی ہیں اور کہیں مساجد بھی کیونکہ عوام اسے اپنا حق سمجھتے ہیں جب سے لوگوں سے یہ اراضی واپس لینی شروع ہوئی ہے توکیا مذہبی اور کیا سکولز سارے صاحبان کو دشنام طرازی کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے ذرا سوچئے کہیں تو بھول ہم سے بھی ہوئی ہے ہم جو عوام ہیں اور ہم جنہیں طاقت اور اختیار کے شاطر اپنے اشاروں پر نچواتے ہیں کہیں تو ہم بھی قصوروار ہیں اس خطرے میں ہم نے بھی برابر حصہ ڈالا ہے اب اگر احتجاج کیلئے ہاتھ بلند کئے جا رہے ہیں تو پہلی آواز اپنے خلاف اٹھنی چاہیے پہلی بغاوت خود سے ہونی چائیے اپنے رویے اپنے طریقہ کار اور اپنے عمل سے اور اگر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا تو دوسرے سے سوال کی جرات بھی ہم میں نہیں پیدا ہو سکتی قوانین اور نظاموں کی حیثیت کاغذ پر لکھے چند حروف کے سوا کچھ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بہت موثر ہوتے ہیں لہذا اگر لوگ جمع ہو کر باہمی تعاون سے اعلیٰ قوانین وضع کر لیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان قوانین پر عملدآمد کس حد تک ہو رہا ہے کیونکہ ان لوگوں کے اخلاق ہی سب سے پہلا معیار ہیں اگر لوگوں کے اخلاق اچھے ہوں گے اور اخلاقی نظام کے تحت اپنے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے ان پر حکومت کرنے والے لوگ بھی ہر گز برے نہ ہوں گے۔
