جہاد بالمارچ کی بجائے اسمبلی میں جائیں

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ایک بار پھر مارچ کے لیے پر تول رہے ہیں انہوں نے ایک بڑا لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف لانے کا عندیہ دے دیا ہے، انہوں نے اپنے کارکنوں اور عہدیداران کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی پارٹی عہدے داران کو مختلف شہروں سے کوٹہ دے رکھا ہے کہ فلاں شہر سے اتنے کارکن آنے چاہیے اور فلاں شہر سے اتنے۔ بڑے شہروں کے لیے کوٹہ زیادہ ہے اور چھوٹے شہروں کے لئے انہوں نے کم کوٹہ مقرر کیا ہے۔ اس مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آنا چاہ رہے ہیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو جائیں گے کیونکہ اس مرتبہ ان کی پنجاب میں حکومت ہے اور کے پی کے میں تو پہلے بھی تھی۔ کے پی کے سے تو خیر وہ پہلے بھی اتنا بڑا جم غفیر لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے مگر اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پنجاب پر زیادہ فوکس کر رہے ہیں اور پنجاب سے زیادہ لوگوں کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پنجاب میں آبادی بھی زیادہ ہے اس لیے ہر شہر سے تھوڑے تھوڑے لوگ بھی نکلیں تو بہت لوگ جمع ہو جائیں گے۔ انہوں نے کارکنوں اور عہدیداران کو کوٹہ دے رکھا ہے تو اس کوٹہ سسٹم میں بھی وہ کامیابی سے کئی لوگوں کو نکال لیں گے۔
اب انہوں نے ایک نئی روایت بھی نکالی ہے کہ وہ کارکنوں سے حلف لے رہے ہیں مختلف جلسوں کے اندر وہ پارٹی عہدے داران اورکارکنوں سے حلف لے رہے ہیں کہ وہ جماعت کے ساتھ وفادار رہیں گے عمران خان کی کال پر باہر نکلیں گے اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے اس کام کو جہاد سمجھ کر کریں گے۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے بھی ہر جگہ پر اسلامک ٹچ دے کر کامیابی سے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں تو یہاں بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ جہاد کے نام پر اب اسلامی اسلامی ٹچ دے رہے ہیں اور اس مارچ کو وہ جہاد کے نام پر کامیاب کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب یہ جہاد لانگ مارچ کے ذریعے ہوگا پہلے ہم نے یہ تو سن رکھا تھا جہاد بالقلم، جہاد بنفس، جہاد بالسیف ہوتا ہے، اب یہ نئی قسم جہاد بالمارچ بھی نکال لائے ہیں۔
عمران خان تو کارکنوں کو جذبہ جہاد کے تحت نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف اسلام آباد میں وفاقی حکومت بھی ان سے نمٹنے کے لئے پوری کوشش اور تیاری کر رہی ہے کہ اسلام آباد میں کنٹینرزلائے جا چکے ہیں اور ریڈ زون کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے اور فوج اور پولیس کو تیار رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ رانا ثنائاللہ تو ویسے بھی ان سے نمٹنے کے لیے جارحانہ سوچ رکھتے ہیں اور آنسو گیس وغیرہ کا تو کہتے ہیں کہ ہم نے بالکل نئی خرید کر رکھی ہے تو ایسے میں اسلام آباد کے اندر ایک بہت بڑے تصادم کا خدشہ ہے ایک طرف کے پی کے اور پنجاب کی حکومت ہوگی اور دوسری طرف وفاق اور سندھ کی حکومت ہوگی یوں ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور آپس میں بڑی خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل لانگ مارچ اور دھرنوں سے نمٹنے کے لیے پولیس اور عوام آمنے سامنے ہوتے تھے مگر اس مرتبہ تو لگتا ہے کہ پاکستان کے تقسیم ہو جائے گا اور سندھ اور وفاقی پولیس ایک طرف ہوگی جبکہ پنجاب اور کے پی کے کی پولیس دوسری طرف ہوگی اور کہیں ان کا آپس میں ہی تصادم نہ ہو جائے۔ اس طرح ایک بہت بڑے نقصان کا خطرہ موجود ہے۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ صوبوں کی پولیس صوبوں میں ہی رہے، صرف وفاقی پولیس وہاں پر خدمات سر انجام دے اور زیادہ سے زیادہ فوج کو پولیس کی مدد کے لئے رکھا جائے اور زیادہ
خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج کو الرٹ رکھا جائے لیکن صوبوں کی پولیس کو مداخلت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ یوں پولیس فوج اور عوام کا آمنا سامنا ہو گا اس صورت میں بھی اگرچہ خطرہ کافی ہے کہ عوام کا نقصان بھی تو ملک کا نقصان نہیں ہے اور ہمارا ہی نقصان ہے لیکن پولیس اور فوج کا آپس میں تصادم ہو جائے تو وہ زیادہ خطرناک صورتحال ہوتی ہے بہر حال عوام کو بچانے کے لیے بھی سیاستدانوں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے عوام کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا آپ جہاد بالمارچ کے خیال کو ترک کریں اور واپس اسمبلی میں جانے کا راستہ آپ کے پاس کھلا ہے اپنے اراکین کو لے کر اسمبلی میں واپس جا ئیں اورحکومت کو ملک لوٹنے سے روکیں۔ وہاں جاکر آپ بتائیں کہ ہم واقعی ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ باقی سڑکوں پر نکلنے سے تو صرف نقصان ہوگا اور لوگوں کے مرنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے، بہت سے لوگ اس میں زخمی ہو جاتے ہیں، کئی طرح کے دیگر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ملک کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے لہذا ملک کو نقصان سے بچانے کے لئے صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ آپ اسمبلی میں جائیں اور وہاں جا کر عوام کو بہتر کارکردگی دکھائیں تاکہ عوام کارکردگی کی بنیاد پر آپ کا ساتھ دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں