275

جنگلی حیات

جنگلی حیات کا بھی ایک اپناہی انداز ہے نہ کوئی قانون اور نہ ہی کوئی ضابطہ اخلاق لیکن ایک امر واقعہ ہے کہ جنگلی حیات قدرت کے بنائے گئے نظام کے مطابق چل رہی ہے۔

اگر ہم اس کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اس میں ایک اصول کار فرما نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے۔ کہ ہر زبر دست زبردست پر حاوی ہے۔ کمزور کوطاقتورکا تر نوالہ بنناہی پڑتا ہے

۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہے کہ فطرت کا تقاضا ہی یہی ہے۔ قدرت نے جانوروں کی تین اقسام تخلیق فرمائی ہیں (carnivores)
(herbivores) (omnivores)
مذکورہ پہلی قسم کے جانور گوشت خور دوسری قسم کے سبزی خور ہیں جبکہ تیسری قسم ان جانوروں پر مشتمل ہے جو گوشت بھی کھاتے ہیں اور سبزی بھی یہی سبب ہے

کہ اگر شیرکسی ہرن کو اپنا لقمہ بناتا ہے تو حیرت کی بات نہیں کیو نکہ قدرت نے
اس کے دانت اس طرح کے بنائے ہیں جو سوائے گوشت کو غذا بنانے کے کچھ نہیں کر سکتے لہذا کمزور جانوروں کا شکار کرنا اس کی غذائی مجبوری بلکہ بقا جاری رکھنے کی معذوری کو بھی ظاہر کرتا ہے

شیر تو جنگل کا بادشاہ گر دانا جاتا ہے اس کی دہشت ناک حکومت پورے جنگل پر ہوتی ہے اگر جنگلی حیات کی سیاسی درجہ بندی کی جائے تو وہ کچھ اس طرح ہو گی 1شیر جنگل کا بادشاہ2چیتا،بھیڑیا، لگڑ بگڑ اور دیگر درندے کا بینہ3گیدڑ، خرگوش،بیل اور دیگر کمزور سبزی خور عوام جنگل کے بادشاہ سلامت پرتمام قوانین و ضوابط سے مثتثنی سمجھے جاتے ہیں

وہ جس کوچاہیں اس کو نا کردہ گناہوں کی سزا تک دیتے ہیں بادشاہ سلامت کے ان خصائل سے تمام جنگل واقف ہے وہ سر عام چیر پھاڑ مار دھاڑ کر تے دکھائی دیتے ہیں

ان کی دیکھا دیکھی کا بینہ بھی سر عام قوانین کی دھجیاں اُڑارہی ہو تی ہے اور خصائل میں جنگلی کابینہ بادشاہ سلامت سے چنداں مختلف نہیں ہو تی اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ در ندگی کیوں کر تے ہیں تو جواب آئے گا کہ بادشاہ سلامت سے پوچھیں۔ بھلا بادشاہ سلامت سے سوال پو چھنے کی جرات کون کر سکتا ہے۔ جنگلی رعایا کے خصائل کا جائزہ لیا جائے تواس میں بھی ہر زبر دست زبر دست کے در پے

ہے گیدڑ کا شکار کمزور جانور بنتے ہیں رات کے اندھیرے میں انسانی بستیوں کا بھی رخ کرتے ہیں اور مر غیاں پکڑکر لے جاتے ہیں اور کبھی ان کی شامت آتی ہے تو شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ بلی قدرے قناعت پسند ہے چو ہا مرغوب غذا ہے مگر اپنی بساط کے مطابق مرغی یا چوزوں کو دبوچنے میں ذرا توقف نہیں کرتی

جب کچھ بھی میسر نہ آئے تو روٹی وغیرہ کھا کر صبر شکر کر لیتی ہے۔ سانپ تو نام ہی دہشت کا ہے کسی کو کاٹ لے تو چودہ طبق روشن کر دے اگر دن میں دکھائی دے تو عین دوپہر کے عالم میں تارے دکھا دے بے چارہ ننھاسا مینڈ ک اس کا تر نوالہ بنتا ہے بے چارہ قرار دیا گیا مینڈک پتنگوں، پروانوں اور دیگر حشرات سے اپنی بھوک مٹاتا ہے اور اپنی بقاکو یقینی بناتا ہے فعل چھپکلی کا بھی ایسا ہی ہے فرق یہ ہے کہ یہ صنف نازک کو ڈراتا دھمکاتا بھی ہے ابھی تک وہ جانور زیر بحث آئے ہیں جن کے دانت نو کیلے تھے

یا وہ کہ جو گوشت کے علاوہ بھی کچھ کھاتے ہیں جنگلی رعایا میں کمزور تر ین سبزی خور جانور ہیں ہر ن، خرگوش، بارہ سینگا وغیرہ ان کی عام مثالیں ہیں ان کی غذامیں گھاس، پودے اور درختوں کے پتے شامل ہیں جنگلی حیات میں درخت، پودے، جھاڑیاں، گھاس اور جڑی بوٹیاں کمزور ترین جانداروں کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں

وہ اس طرح کہ کمزور سے کمزور جانور بھی اپنی خوراک ان سے حاصل کر تا ہے اگر چہ ان میں بھی کچھ ہیں جو حشرات کھاتے ہیں مثلا پچر پلانٹ وغیرہ،انسان اشرف المخلوقات ہے بلاشبہ یہ دنیا اور اس میں موجود تمام اشیا اس کے استعمال کے لئے بنائی گئی ہیں اس انداز سے اگر سو چا جائے

اور انسانی حیات کا موازنہ جنگلی حیات سے کیا جائے تو ہم فخر محسوس کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ضابطہ ہے قانون ہے۔ جو کہ سب سے بالا
ہے

۔ اگرہم تعصب کی عینک اتارکر اور انصاف کا دامن تھام کر سوچیں تو ہمیں اپنی موجودہ معاشرتی زندگی اور جنگلی حیات میں چنداں فرق
نہ دکھائی دے گا۔ درج بالا بحث اس حیات سے متعلق تھی جو عقل سے عاری تصور کی جاتی ہے ان کے تمام افعال فطرت کے تابع ہیں اور جسے ہم درندگی خیال کرتے ہیں۔ وہ درندگی ان کی بقا کا باعث ہے۔اس کے بر عکس اگر ہم انسانی معاشرے کا جائزہ لیں تو وہ جنگلی حیات کے مماثل دکھائی دیتا ہے

معاشرے کے عام فرد سے لے کر خاص فرد اور پھر اشرافیہ تک ہمیں شیربھی دکھائی دیتاہے چیتا ، بھیڑیا اور لگڑ بگڑ بھی نظر آتے ہیں۔ گیدڑر، ہرن خر گوش اور دیگر اپنے کردار و افعال سے جنگلی حیات کاتمسخر اڑار ہے ہوتے ہیں۔ایساکیوں ہے؟ بچھو کا کام ڈنک مارنا ہے۔ سانپ کا کام ڈسنا ہے

، درندوں کی صفت چیرنا پھاڑنا ہے ایسا کرنا انہیں فطرت نے سکھایا ہے، اس کے بر عکس انسان کو فطرت نے امن و آشتی،عدل وانصاف اور محبت و بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ اس کے سامنے ایک منظم ضابطہ حیات رکھ دیا ہے۔ نیکی و بدی کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اختیار بھی دے دیا ہے۔

تخلیق تو دونوں انواع کی فطرت پر ہوئی ہے قصور وارتو وہ ہے جو اپنے متعین کر دہ راستے سے ہٹا۔جنگلی حیات کے مماثل انسانی حیات

میں بھی ہر طاقتور کمزور کو تابع کرنے پر بضد ہے مستزاد تباہ کرنے پر تلا ہے۔ فلسطین کی مثال یوں ہے کہ جیسے کسی درندے نے ہرن کو دبوچ رکھا

ہو اس کی آہ وفغاں دیگر ہرنوں کے لیے بے اثر ہے کیونکہ درندہ ابھی ان تک نہیں پہنچا اور وہ ابھی آزاد ہیں مگر کب تک ؟ طاقتور ممالک اور کمزور ممالک جنگل کے قانون کی ہی تصویر کشی کر تے نظر آتے ہیں اگر چہ دونوں اصناف کے افعال ایک جیسے ہیں اس کے باوجود ان کے درمیان ایک واضح فرق ہے ایک تلخ حقیقت ہے

کہ وہ جانور ہو کر انسانوں کی عادتیں نہیں اپناتے اور ہم انسان ہو کر بھی ان کی تقلید پر چل پڑے ہیں۔ ایک جنگلی درندہ کافی تگ ودو کے بعد کسی جانور کو لقمہ اجل بنا تا ہے اس کے بر عکس ایک انسان بڑی آسانی سے دوسرے انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ہے منصب، طاقت اوردولت اس کی بے

گناہی کا ثبوت ہیں لاچار کمزور غریب انصاف کے لیے قیامت کا انتظار کرتے ہیں یہی انسانی حیات کا المیہ ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں