61

جنگلات کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی ضرورت

جنگلات روئے زمین بلکہ کائنات کی اہم ترین اور نایاب شے ہے جو زمین کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں۔انسانی ارتقا کیساتھ انسان نے ہی اپنی ضروریات اور بڑھتی آبادی جنگلات کو نقصان پہنچایا، جو درجہ حرارت میں اضافے کا سبب اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بنتا ہے۔ جنگلات کی کمی سے بارش کم ہوتی ہے

، سیلاب سے زمینی کٹاؤ کا عمل تیز ہوتا ہے۔ پاکستان کے بمشکل پانچ فیصد (4.8) رقبے پہ جنگلات موجود ہیں۔ پاکستان میں آٹھ بڑے جنگلات موجود ہیں۔ جن میں سب بڑا انسانی ہاتھ سے لگایا گیا چھانگا مانگا کا جنگل ہے۔ہر سال کشمیر، کے پی کے اور پوٹھوہار جس میں مری کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کلرسیداں کے جنگلات شامل ہیں

میں فائر سیزن میں اپریل سے اکتوبر تک آگ لگتی ہے جس سے جنگلات سمیت جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ جنگلات کے جلنے اور کٹنے میں جہاں ناکافی سہولیات ہیں وہیں محکمہ انتظامیہ، محکمہ جنگلات کی نا اہلی و ملی بھگت اور سب بڑھ کر سیاسی مداخلت کا عنصر سرفہرست ہے۔جنگلات کے تحفظ کیلئے نئی قانون سازی کی سخت ضرورت ہے۔ پنجاب فارسٹ، فشریز اور وائلڈ لائف میں اب تک 1927کا قانون چل رہا ہے۔

نئی اصلاحات لا کر سخت قانون سازی، جرمانے اور سزا جب تک تجویز نہ ہونگے تب تک جنگلات اور ماحولیات کا تحفظ ناممکن ہے۔ جنگلات کے تحفظ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے۔ ٹمبر مافیا سیاسی طاقتوں کیساتھ مل کر جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اکثر و بیشتر لکڑی پکڑے جانے پہ معاملہ گول مول ہوجانا انتظامی اور قانونی کمزوری ہے۔پی ٹی آئی دور حکومت میں بلین ٹری سونامی سمیت متعدد اقدامات جنگلات کے اگاؤ اور تحفظ کیلئے لگائے گئے تاہم حکومت جلد ختم ہونے باعث یہ پروگرام سرد خانے کی نظر ہوگئے۔

جنگلات کے تحفظ واسطے راکھے اور محکمہ جنگلات کو جدید خطوط اور سہولیات دینے کیلئے فائلیں دب کر رہ گئیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے زائد کہوٹہ کے جنگلات جل کر راکھ بن گئے ہیں۔ مقامی افراد کا جنگلات کو آگ لگانا، ٹمبر مافیا کا آگ جلا کر فائدہ اٹھانا، اور محکمانہ مل بھگت اور ناکافی سہولیات یہ وہ سب مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ پنجاب اسمبلی،وزیر قانون،حکومت پنجاب، وزیر ماحولیات مریم اورنگزیب، سیکرٹری جنگلات اور وائلڈ لائف، جنگلات کے بیش قیمت خزانے کو بچانے کیلئے فی الفور سخت قانون سازی کریں، محکمہ کو آگ بجھانے کیلئے جدید سامان /لباس مہیا کریں۔ محکمانہ ملی بھگت کو ختم کرنے کیلئے نئے افراد بھرتی کئے جائیں۔

فارسٹ چیک پوسٹوں کو چوبیس گھنٹے فعال رکھ کر جنگلات کی کٹائی فی الفور روکی جاسکتی ہے۔ اگر متعلقہ اتھارٹیز یہ مسائل حل نہیں کرتی تو آئیندہ سالوں میں ہم جنگلات سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، موسم شدت اختیار کریگا۔ بارشیں کم ہونگی، درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئر پگھلیں گیاور ڈیموں کیلئے پانی کم اور سیلاب آئیں گے جو شدید معاشی بحران کا سبب بنیگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں