آزاد کشمیر میں جنگلات کا تخمینہ شدہ رقبہ تقریباً 4900 مربع کلومیٹر ہے۔ آزاد دائرۃ المعارف کے مطابق آزادکشمیر 1947 کےمطابق یہ علاقے کا تقریباً 40 فیصد حصہ بنتا ہے۔لیکن اس وقت آزادکشمیرمیں بےدریغ کٹائی کےسبب یہ مجوعی رقبہ کاپندرہ فیصد باقی رہ گیا ہے آزاد کشمیر میں ہر سال جنگلات کو آگ لگنا معمول ہے ،امسال مظفرآبادڈوثزن میرپور ڈویژن خاص طور کوٹلی و بھمبر ڈویڑن میں خوفناک آتشزدگی سے کروڑوں روپے کے جنگلات لینے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ،گرم موسم شروع ہونے سے قبل ہر سال کی طرف کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں اجلاس کیے گئے،لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ،ایمرجنسی رابطہ نمبرز دیے گئے،جنگلات کے کمپاٹ کی سطح پر تحفظ جنگلات کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں مگرعدم دلچسبی اور حکومتی سرپرستی کانہ ہونا اورکرپٹ عملہ کی وجہ سے کارکردگی حوصلہ افزائی نہیں ہے ۔
مظفرآباد میں لیپہ چکار چناری اورکھلانا اور نیلم میں اپرنیلم شاردہ کیل اس طرح ،کوٹلی ،سہنسہ، ،چڑہوئی کے مقامات پر محکمہ جنگلات اور انتظامیہ کے سامنے قیمتی جنگلات اور جنگلی حیات خاکستر ہو گئی،محکمہ جنگلات جس پر عوامی ٹیکسوں سے سالانہ کئی کروڑ خرچ ہوتے ہیں اس نے مزید کروڑوں کا قیمتی اثاثہ محفوظ رکھنے میں نااہلی اور غفلت برتی جس کا احتساب ضروری ہے ۔آگ کے لیے تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے، ایندھن، آکسیجن اور تپش۔فائر فائٹرز جب آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اکثر ’فائر ٹرائنگل‘ کا ذکر کرتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ اگر ہم آگ کے لیے ضروری تین چیزوں میں سے ایک کو ہٹا لیں تو آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔گرمیوں میں جب درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور خشک سالی جیسے حالات ہوتے ہیں تو ایک چھوٹی سی چنگاری سے آگ لگ سکتی ہے۔کبھی کبھار آگ قدرتی طور پر سورج کی تپش یا پھر آسمانی بجلی کے گرنے سے لگ جاتی ہے اور اکثر مافیاز خود اگ جلاتا ہے تاکہ درخت زخمی ہوکرخشک ہوں اور عملہ کی ملی بھگت سے اس کوفروخت کیا جاسکے ۔
تاہم جنگلات میں آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی جانب سے برتنے والی بے احتیاطی ہے۔ بعض اوقات دانستہ بھی آگ لگائی جاتی ہے اس میں مافیاز اور عملہ ملوث ہوتے ہیں ۔جب جنگل میں ایک بار آگ شروع ہو جائے تو وہ ہوا، اترائی، چڑھائی اور خشک درختوں کی شکل میں موجود ایندھن، آگ کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔لیکن جہاں یہ تینوں چیزیں ہوں تو آگ پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑے علاقے پر پھیل جاتی ہے۔جنگلات کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے ’فارسٹری کمیشن‘ سے وابستہ عملےکے بقول ’اترائی یا چڑھائی والی جگہ پر آگ کے پھیلنے کی رفتار تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔‘کیا موسم کا کوئی کردار ہوتا ہے؟جی ہاں موسم اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔جب خشک سالی ہو اور موسم بھی بہت گرم ہو تو یہ حالات آگ لگنے کے لیے بہت ساز گار ہوتے ہیں۔آپ کو ’فائر ٹرآئنگل‘ والی بات یاد ہے نا؟ خشک درخت، گھاس اور دیگر پودے وغیرہ آگ کے لیے ایندھن بن جاتے ہیں۔ جب زیادہ گرمی پڑتی ہے تو آگ کے پھیلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ آگ کی شدت میں دوپہر کے وقت تیزی دیکھنے میں آتی ہے۔وہ ممالک جہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے اور بارش بھی کم ہوتی ہے وہاں کے جنگلات میں آگ لگنے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔
گارڈز کاکہنا ہے کہ ’آگ کے لیے ایندھن اور آکسیجن لازمی ہیں۔جب آگ پھیلتی ہے تو بعض اوقات وہ ایسی ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے جو آگ کے پھیلنے کے لیے معاون ہوتی ہیں۔‘ان کے بقول ’آگ سے پیدا ہونے والے دھویں کے بادلوں کے باعث آپ آگ کو صیح طریقے سے دیکھ نہیں سکتے جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے۔آگ سے کیسے جیتا جا سکتا ہے؟کہتے ہیں کہ آگ پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے اس کے راستے میں موجود ایندھن کو ہٹا دیا جائے۔آپ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آگ اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں کسی طرف کا رخ کرے گی اور پھر اس کے راستے میں موجود ایندھن کو وہاں سے ہٹا کر آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ہم جنگلات کے بارے میں سوچتے ہیں تو صرف یہی بات ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ یہ صرف کاربن اسٹور کرنے والے پاور ہاو س ہیں۔ بلکہ یہ حیاتیاتی تنوع کا بھی متعدد حوالوں سے تحفظ کرتے ہیں۔
کاربن گیسیں جذب کرنا، زیر زمین پانی کو تازہ بنانا، زمین کو کٹاو¿ سے بچانا اور قدرتی ماحول اور تر و تازہ آب و ہوا کو برقرار رکھنا، یہ سبھی کام۔ یہ جنگلات مقامی ایکو سسٹم کا کلیدی حصہ ہیں، ہماری مارکیٹ یا ہمارا نظام اس امر کا مالیاتی حوالے سے تقابلی جائزہ نہیں لیتا۔ یہ مارکیٹ سسٹم کی ناکامی ہے۔ہمارے جنگلات کو آتشزدگی کے بعد سب بڑا خطرہ کرپٹ ملازمین اور ٹمبر مافیا سے ہے جنگلات ہمارا قومہ اثاثہ ہے لیکن خودغرض اور مفاد پرست اس کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس کا لوٹ مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔جنگلات کی حفاظت کیلئے باضابط طور محکمہ مقرر ہے اور محکمہ جنگلات کے کئی شعبے بھی بنائے گئے ہیں جس میں فارسٹ پروٹیکشن فورس ہونی چاہئے تاکہ وہ طاقت کے بل پر اسمگلروں کا قافیہ حیات تنگ کرسکیں ۔اس فورس کے وجود میں آنے کے بعدجنگل اسمگلر خوف محسوس کرنے لگیں گے۔نامساعد حالات میں جہاں معمولات زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے وہیں حالات کی خرابی جنگل اسمگلر وں کیلئے عید ہوتی ہے اور وہ اس دوران جنگلات کو سونے کی کان تصور کرتے ہیں ۔ ۔محکمہ جنگلات کے بہت سے افسران و ملازمین فرض شناسی اورایمانداری کا مظاہرہ کرکے جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے میں متحرک رہتے ہیں اور جنگلر اسمگلروں کا تعاقب کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملادیتے ہیں لیکن چند گرد نما افسران وملازمین ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاکر ہھی سرگرم ہوکر جنگل اسمگلروں کی پشت پناہی کرکے جنگلات کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ہم وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان سے گذارش کریں گے کہ وہ اپنی حکومت کی ترجیحات میں آزاد کشمیر کے اندر جنگلات کے بچاو،تحفظ اور فروغ کو بھی شامل کریں
جنگلات کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ماحولیاتی نظام، آب و ہوا اور انسانی معاشرے کے لیے بہت سے فوائد فراہم کرتے ہیں۔ جنگلات آکسیجن فراہم کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں، مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع کے لیے رہائش گاہ فراہم کرتے ہیں.
جنگلات کی حفاظت کی اہمیت:
ماحولیاتی نظام:
جنگلات زمین پر موجود تمام جانداروں کے لیے ایک اہم رہائش گاہ ہیں۔ وہ ہوا اور پانی کو صاف کرتے ہیں، مٹی کو مستحکم کرتے ہیں اور سیلاب اور خشک سالی کو روکنے میں مدد کرتے ہیں.
آب و ہوا:
جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے اور آکسیجن خارج کر کے آب و ہوا کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں.
انسانی معاشرہ:
جنگلات انسانی معاشرے کے لیے لکڑی، ادویات، خوراک اور دیگر ضروری وسائل فراہم کرتے ہیں۔ وہ معیشت اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں.
حیاتیاتی تنوع:
جنگلات پودوں اور جانوروں کی لاتعداد اقسام کے لیے رہائش گاہ فراہم کرتے ہیں۔ وہ حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے اور ماحولیاتی نظام کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتے ہیں.
جنگلات کی حفاظت کے طریقے:
درخت لگانا:
نئے جنگلات اگانا اور تباہ شدہ جنگلات کو بحال کرنا ضروری ہے۔
جنگلات کی کٹائی کو روکنا:
غیر قانونی جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور اقدامات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگلات کے وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال:
جنگلات کے وسائل کو ذمہ داری سے استعمال کرنا چاہیے اور مستقبل کے لیے ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
جنگلات کے تحفظ کے بارے میں آگاہی:
لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی حفاظت کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے.
جنگلات کی حفاظت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہم سب کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے(خالدعمران خالد)