جعلی عامل

ساجد محمود
موجودہ دور میں ہمارا معاشرہ افراتفری کا شکارہے معاشی نا ہمواری آپسی انتشار اور رشتوں میں نا چاکی کی بنا پر انسانی زہن پر اضطرابی کیفیت طاری ہے جسکی وجہ سے مختلف نوعیت کی بیماریاں انسانی جسم میں سراہیت کر گئی ہیں ان امراض کے علاج کیلئے ہسپتال قائم ہیں لیکن صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی بنا پر لوگوں کی کثیر تعداد روحانی علاج کے لیے جعلی پیر اور عاملوں کے آستانہ کا رخ کرتی ہے جسکی بڑی وجہ
تعلیم و شعور کی کمی ہے یہ نام نہاد جعلی پیر اور عامل لوگوں کو گمراہ کر نے اور ان سے رقم بٹورنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں انکو ایسی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ھوتی ہے جو انکے زریعے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم ھو تے ہیں اور یہ پس پردہ کردار عام آدمی کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یہ جعلی پیر عامل بظاہر بڑی پارسائی کے دعوے کرتے ہیں مگر ان کے قول وفعل میں بہت تضاد پایا جاتاہے ایک ذی شعور انسان انکی چہرہ شناسی اور اندازِ گفتگو سے انکے عزائم ومقاصد اور نتائج سے بخوبی آگاہی حاصل کرسکتا ہے جنات نکالنے پسند کی شادی کی مراد پوری ھونادوسروں کے کاروبار میں رکاوٹ ڈالنا محبوب کو قدموں میں گرانا جیسے مسائل کا حل انکے فرائض منصبی میں شامل ہے کالے جادو کے ایسے ٹونے بتائے جاتے ہیں جن کے سرانجام دینے سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ھوتے ہیں بلخصوص خواتین ان جعلی پیر اور عاملوں کے متعلق عجیب و غریب عقائد رکھتی ہیں ہر مشکل اور بیماری کا حل ڈھونڈنے انکے آستانہ کا رخ کرتیں ہیں اکثر واقات جنات کو نکالنے کے عمل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے جس کی بنا پر اموات بھی واقع ہوئی ہیں اسی نوعیت کا ایک واقعہ رواں سال سرگودھا میں پیش آیا تھا جس میں ایک گدی نشین عبدالوحید نے نشہ آور شربت پلا کر بیس افراد کو ڈنڈوں اور چاقو کے وار سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں 3اکتوبر 2017 کو ضلع شیخوپورہ میں ایک عامل کے کہنے پر ایک ماں نے اپنے لختِ جگر کو قتل کر دیا تھا بقول ملزمہ کے ایسا عمل کرنے سے اسے جنات سے چھٹکارا مل جائے گا یہ عامل انسانیت کے خلاف انتہائی گھناونے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں یہ موجودہ دور میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے پڑھے لکھے مرد اور خواتین کا یہ فرض ہے کہ وہ ان خرافات کے تدارک کے لیے عوام الناس کے اندر شعور بیدار کریں دوسری طرف ان جعلی پیر اور عاملوں کے بارے میں مذہبی راہنماؤں کی پر اسرار خاموشی باعثِ تعجب ہے تاہم مسلم لیگ ن کے راہنما اور سینٹیرچوہدری تنویر خان خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے ان جعلی پیر اور عاملوں کے خلاف ایک بل ایوان بالا میں پیش کیا جس میں ایسے مکروہ دھندہ کرنے والوں کے خلاف سزا تجویز کی گئی کالے جادو پر نوعیت کے لحاظ سے دو سے سات سال قید دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا تعین کیا گیا ہے اس قانون کے اطلاق سے ان مکروہ دھندا کرنے والے جعلی پیر اور عاملوں کو قآنون کے شکنجے میں لانے اور قرار واقعہ سزا دلوانے میں مدد ملے گی قانون کا نفاذ اپنی جگہ درست مگر ہم سب پر بھی کچھ اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ہم ماپنے گھر محلے گاؤں کی سطح پر لوگوں میں شعور بیدار کریں تاکہ ان جعلی پیر اورعاملوں کے متعلق عقائد نظریات میں بدلاؤ ممکن ہو اور اسکے لیے خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اولاد جنہوں نے کبھی ذندگی میں اپنے ماں باپ کی پیشانی اور ہاتھ پر بوسہ نہیں دیا وہ بدقسمت ان جعلی پیر اور عاملوں کے ہاتھ چومتے اور پاؤں میں گرتے دیکھے جا سکتے ھیں جو جاہلیت اور اخلاقی پستی کی واضح مثال ہے موجودہ دور میں ہمیں ان گنت مسائل کا سامنا ہے جسکی بنا پر زہنی اور نفسیاتی امراض میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے مگر انکے علاج کے لیئے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے ان جاہلی پیر اور عاملوں سیے حتی المقدور کنارا کشی اختیار کرنی چاہیے یہ مذہب کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور دولت اگھٹی کرنے میں مگن ہیں اسکے علاوہ حکومت کو چاہثے کہ انکی نشر واشاعت کے مواد اور وال چاکنگ پر پابندی عائد کیجائے اور ان کے اثاثہ جات کی مکمل چھان بین کیجائے اور ہمیں مصالحت پسندی کی بجائے انکے خلاف واضح موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ انکی مشکوک سرگرمیوں پر قدغن لگائی جا سکے دکھ تکالیف اور مصائب انسانی زندگی کا لازمی جزو ھیں لہذا گبھرانے کی بجائے جوانمردی سے انکا مقابلہ کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں